اسلام آباد (نیوز ڈیسک) بھارت نے چین کی جانب سے ریاست اروناچل پردیش کے مختلف علاقوں کو نئے نام دینے کے حالیہ اقدام کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ نے واضح موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اروناچل پردیش بھارت کا ایک ناگزیر اور ناقابلِ تقسیم حصہ ہے، اور اس پر چین کی کسی بھی قسم کی نامزدگی یا دعویٰ کوئی فرق نہیں ڈال سکتا۔
چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بیجنگ نے اروناچل پردیش کے جن علاقوں کے نام بدلے ہیں، وہ چین کی خودمختار حدود میں آتے ہیں، اور وہ اس علاقے کو “زَنگ نان” یعنی جنوبی تبت کا حصہ تصور کرتا ہے۔ تاہم بھارت نے اس دعوے کو ہمیشہ مسترد کیا ہے۔
بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے اپنے بیان میں کہا کہ صرف نام تبدیل کرنے سے یہ حقیقت نہیں بدلے گی کہ اروناچل پردیش بھارت کا لازم و ملزوم حصہ تھا، ہے اور رہے گا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ چین نے اروناچل پردیش کے جغرافیائی نام تبدیل کیے ہوں۔ اس سے قبل 2023 میں بھی بیجنگ نے تقریباً 30 مقامات کو نئے نام دیے تھے جنہیں نئی دہلی نے غیر سنجیدہ اور بے بنیاد قرار دیا تھا۔
یہ صورت حال ایسے وقت میں پیش آئی ہے جب چین اور بھارت نے حال ہی میں مغربی ہمالیہ کے علاقے میں کئی سال سے جاری سرحدی کشیدگی کو کم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں ممالک نے افواج کے جزوی انخلاء پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اسی دوران بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ سنگین فوجی جھڑپوں کے بعد سیزفائر کا اعلان بھی ہوا ہے۔
چین اور بھارت کے درمیان 3,800 کلومیٹر طویل سرحدی تنازعہ ایک پرانا مسئلہ ہے، جو 1962 کی جنگ سے لے کر 2020 میں وادی گلوان کی خونریز جھڑپوں تک مختلف اوقات میں کشیدگی کا سبب بنتا رہا ہے۔ خطے کی موجودہ صورتحال میں کشیدگی دوبارہ بڑھنے کے امکانات کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا، اور بین الاقوامی سطح پر اس تنازعے پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔