اسلام آباد (نیوز ڈیسک) — مقبوضہ کشمیر کے معروف تفریحی مقام پہلگام میں پیش آنے والے حالیہ واقعے کے بعد بھارتی حکومت اور سکیورٹی ادارے شدید دباؤ اور ابہام کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔ فالس فلیگ آپریشن کے دعوے کی ناکامی اور سکیورٹی کی ناکامی کے بعد، بھارت نے اس بار چین کی ٹیکنالوجی کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا ہے، جبکہ اس سے قبل پاکستان پر الزام دھرنے کی کوشش بھی رائے عامہ میں پذیرائی نہ پا سکی تھی۔
عالمی سطح پر بھارت کے خود ساختہ دعوؤں اور نام نہاد آپریشن کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا گیا، جس کے باعث نہ صرف عام بھارتی شہری بلکہ سیاستدان بھی اس پر سوالات اٹھاتے نظر آئے۔ اب نئی پیش رفت میں بھارتی انٹیلیجنس اداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ حملہ آوروں نے چینی مواصلاتی آلات، سیٹلائٹ فونز اور میسجنگ ایپس کی مدد سے اپنے سرحد پار ہینڈلرز سے رابطہ رکھا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق، جن چینی موبائل ایپس پر 2020 میں گلوان وادی میں چین سے جھڑپوں کے بعد پابندی عائد کی گئی تھی، وہی ایپس اب مبینہ طور پر حملہ آوروں کی جانب سے استعمال کی گئیں تاکہ بھارتی سکیورٹی اداروں کی نگرانی سے بچا جا سکے۔
ان الزامات کے بعد بھارت میں یہ بحث ایک بار پھر شدت اختیار کر گئی ہے کہ غیر ملکی ٹیکنالوجی پر انحصار، خاص طور پر چینی ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر، ملکی سکیورٹی کے لیے کتنا بڑا خطرہ بن سکتا ہے اور کیا بھارت ان کی مؤثر نگرانی یا کنٹرول کی صلاحیت رکھتا بھی ہے یا نہیں۔