اسلام آباد (نیوز ڈیسک) ایک 88 سالہ بھارتی خاتون، ایلس جان، اپنے بیٹے اور دیگر بچوں سے ملنے کے لیے بھارت سے کینیڈا کے شہروں برامپٹن اور ہیملٹن گئی تھیں، لیکن یہ خاندانی ملاقات چند ہی دنوں میں ایک میڈیکل ایمرجنسی میں تبدیل ہو گئی۔
ایلس جان جنوری 2024 میں کینیڈا پہنچی تھیں اور انہیں جلد ہی صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے انہیں ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ نیوز 18 کے مطابق ان کے علاج پر خاندان کو 96 ہزار ڈالر (تقریباً دو کروڑ 71 لاکھ روپے سے زائد) کا خرچہ اٹھانا پڑا۔ ایلس جان کینیڈا میں چھ ماہ کے لیے سپر ویزے پر تھیں، جو کینیڈین شہریوں یا مستقل رہائشیوں کے والدین اور دادا دادی کو دو سال تک قیام کی اجازت دیتا ہے اور یہ ویزا دس سال کے لیے کارآمد ہوتا ہے۔
اس ویزے کے تحت نجی میڈیکل انشورنس لازمی ہوتی ہے۔ایلس جان کے بیٹے جوزف کرسٹی کے مطابق ان کی والدہ ہیملٹن میں اپنی بیٹی سے ملنے گئی تھیں جب ان کی حالت خراب ہوئی۔ انہیں کھانسی، سانس لینے میں دشواری اور بخار کی شکایت شروع ہوئی۔ انہیں ہیملٹن جنرل ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کی حالت کو ہائپوکسک ریسپائریٹری فیلئر قرار دیا گیا۔ کرسٹی نے بتایا کہ “انہیں کھانسی، سانس کی تکلیف اور بخار کی علامات شروع ہوئیں۔” ایلس کو تقریباً تین ہفتوں تک ہسپتال میں رہنا پڑا، جہاں انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا اور ان کا انتہائی نگہداشت میں علاج کیا گیا۔
خاندان نے پہلے ہی مینولائف کے ذریعے ایک بنیادی ٹریول انشورنس پالیسی خریدی تھی جو ایک لاکھ ڈالر تک کی کوریج فراہم کرتی تھی۔تاہم انشورنس کمپنی نے دعویٰ مسترد کر دیا اور کہا کہ ایلس جان کو پہلے سے ہی بیماری تھی۔ پالیسی کے مطابق جن افراد کو کنجسٹو ہارٹ فیلئر کی تشخیص ہوئی ہو وہ کوریج کے اہل نہیں ہیں۔ خاندان کو بتایا گیا کہ “اگر آپ کو کبھی کنجسٹو ہارٹ فیلئر کی تشخیص ہوئی ہو تو آپ اس پالیسی کے تحت کوریج کے حقدار نہیں ہیں۔” کرسٹی نے کہا کہ یہ تشخیص ان کے لیے حیران کن تھی کیونکہ “گزشتہ تین سالوں میں ان کے کسی بھی نسخے میں کنجسٹو ہارٹ فیلئر کا ذکر نہیں تھا۔” دعویٰ مسترد ہونے کی وجہ سے خاندان کو 96 ہزار 311 ڈالر کا پورا بل ادا کرنے کا کہا گیا۔