اسلام آباد (نیوز ڈیسک) ایران کو درپیش معاشی بحران اور امریکی پابندیوں کی شدت کے باعث ملکی کرنسی ریال کی قدر تاریخی گراوٹ کا شکار ہو گئی ہے۔ پہلی مرتبہ ایک امریکی ڈالر کی قیمت 10 لاکھ (1,039,000) ایرانی ریال سے تجاوز کر گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت کی سخت پالیسیوں، خصوصاً سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی “زیادہ سے زیادہ دباؤ” مہم کے نتیجے میں ایرانی کرنسی مزید کمزور ہو سکتی ہے۔
حالیہ رپورٹس کے مطابق، سابق امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو ایک مراسلہ ارسال کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ تہران کو اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے فیصلہ کرنا ہوگا، بصورت دیگر اسے مذاکرات یا ممکنہ فوجی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم، آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی مطالبات کو “چالاک حکمت عملی” قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا، جبکہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بھی واضح کیا کہ جب تک امریکہ اپنی پالیسی میں تبدیلی نہیں لاتا، اس وقت تک واشنگٹن سے کسی قسم کے مذاکرات ممکن نہیں۔اقتصادی ماہرین کے مطابق، ایران میں مہنگائی کی سالانہ شرح 40 فیصد تک جا پہنچی ہے، جس کی وجہ سے عوام اپنی بچت کو ڈالر، سونے اور دیگر مستحکم کرنسیوں میں منتقل کر رہے ہیں۔ اس رجحان کے باعث ریال کی قدر میں مزید کمی اور مہنگائی میں مزید اضافہ متوقع ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ 2018 میں جب امریکہ نے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کی تھیں، اس وقت ایک امریکی ڈالر 55,000 ایرانی ریال کے برابر تھا، لیکن حالیہ گراوٹ کے بعد اس کی قدر نصف سے بھی کم ہو چکی ہے۔ مزید برآں، سابق صدر ٹرمپ کے دور میں ایران کی تیل کی برآمدات اور زرمبادلہ کے ذخائر کو نشانہ بنانے کے لیے مزید سخت پابندیوں کا اعلان کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں ایران کی معیشت مسلسل دباؤ کا شکار ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو ایران کو مزید سنگین اقتصادی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس سے عوامی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔