اسلام آباد (نیوز ڈیسک)یہاں ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے خاندان کی حالت زار پر ایک چشم کشا رپورٹ سامنے آئی ہے، جس میں ان کے وارثوں کی مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے۔بھارتی میڈیا نے بہادر شاہ ظفر کی نواسی، سلطانہ بیگم، کا سراغ لگایا ہے اور ان کی زندگی کے حالات منظر عام پر آئے ہیں۔ 60 سالہ سلطانہ بیگم مغربی بنگال کے علاقے کولکتہ کے قریب ہاوڑہ میں نہایت سادہ زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ کسی شاندار محل میں نہیں بلکہ دو کمروں پر مشتمل ایک مختصر سے گھر میں رہتی ہیں، جہاں بنیادی ضروریات پوری کرنا بھی ایک چیلنج بن چکا ہے۔
سلطانہ بیگم کا کہنا ہے کہ وہ ایک عام ہندوستانی کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور روزمرہ اخراجات پورے کرنے کے لیے انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے مطابق ان کے آباؤ اجداد کی شاہانہ زندگی اب صرف کتابوں، کہانیوں اور فلموں تک محدود ہوچکی ہے، جب کہ حقیقت میں ان کے خاندان کے افراد بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔رپورٹ کے مطابق، سلطانہ بیگم کی نانی، بہادر شاہ ظفر کی بہو تھیں۔ سلطانہ بیگم کی شادی شہزادہ مرزا بیدار بخت سے ہوئی تھی، جو 1980 کی دہائی میں انتقال کر گئے۔ شوہر کی وفات کے بعد ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا، اور وہ مالی مسائل سے نبرد آزما ہوگئیں۔ان کے چھ بچے ہیں اور انہیں حکومت کی طرف سے صرف 6,000 بھارتی روپے ماہانہ پنشن ملتی ہے، جو کہ ایک خاندان کے اخراجات کے لیے ناکافی ہے۔ ان کی غیر شادی شدہ بیٹی مادھو بیگم ان کے ساتھ کولکتہ میں مقیم ہیں، جب کہ باقی بچوں کو بھی مالی مشکلات کا سامنا ہے۔
سلطانہ بیگم کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شاہی نسب پر فخر کرتی ہیں، لیکن روزگار کے حصول میں شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ انہوں نے اپنی روزی روٹی چلانے کے لیے چائے کا اسٹال لگانے اور خواتین کے ملبوسات تیار کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ کوششیں زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوئیں۔بہادر شاہ ظفر نے 1837 میں تخت سنبھالا تھا، اور اس وقت مغلیہ سلطنت زوال کی جانب گامزن تھی، تاہم اس کی شان و شوکت اب بھی قائم تھی۔ 1857 کی جنگ آزادی میں انہیں انقلابیوں کی قیادت کے لیے منتخب کیا گیا، لیکن برطانوی حکومت نے اس بغاوت کو سختی سے کچل دیا۔ جنگ کے بعد انہیں گرفتار کرکے برما (موجودہ میانمار) کے شہر ینگون میں جلاوطن کر دیا گیا، جہاں 1862 میں ان کا انتقال ہوا۔ان کے خاندان کی موجودہ حالت اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ جو سلطنت کبھی ہندوستان کی پہچان تھی، اس کے آخری بادشاہ کے وارث آج معمولی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔