اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )بی بی سی نے اپنے ایک آرٹیکل میں 2018ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ اور وزیراعظم عمران خان کو بھی کٹھ پتلی قرار دیدیا ، پی ٹی آئی کے کارکنان اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار ۔ تفصیلات کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے نے 2018ء الیکشن سے متعلق ایک آرٹیکل شائع کیا جس میں 2018ءکے الیکشن کو دھاندلی زدہ ج
بکہ وزیراعظم عمران خان کے بارے میں کٹھ پتلی کا لفظ کا استعمال کیا ۔ اس آرٹیکل میں بی بی سی نے کہا کہ الیکشن 2018 پاکستان کی تاریخ کا سب سے گندہ ترین الیکشن ہے۔ الیکشن سے پہلے ہونیوالے سروے ن لیگ کی واضح برتری بتارہے تھے لیکن عمران خان کم میجورٹی لیکر اقتدار میں آگئے۔شائع آرٹیکل میں وزیراعظم عمران خان کے علاوہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ کو رگیدا گیا جبکہ اس میں ایک خاتون عائشہ صدیقہ کی رائے کو شامل کیا جو بیرون ملک بیٹھ پر افواج پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کرتی ہے جبکہ وہ پی ٹی ایم اور دیگر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث قوتوں کو مکمل سپورٹ کرتیں ہیں ۔ تحریک انصاف کے کارکنان اور سوشل میڈیا صارفین نے بی بی سی کے اس آرٹیکل پر سخت ردعمل کا اظہار کے بعد شیم آن بی بی سی ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ۔ سوشل میڈیا صارفین بی بی سی کو کھر ی کھری سناتے ہوئے کہا ہے کہ بی بی پاکستان کی اپوزیشن کے بیانیے کو اپنی رائے بنا کر پروموٹ نہ کرے ۔ صحافتی اصولوں کی دھجیا ں بکھیرتے ہوئےعوام کو گمراہ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے میڈیا سیل کے طور پر کام کرے۔بی بی سی کے شائع آرٹیکل پر وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ فافن نے 2018ءالیکشن میں انتخابی سرگرمیوں نے تسلیم کیا تھا اور واضح طور پر کہا تھا کہ 2018
کے الیکشن صاف اور شفاف تھے ۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹنگ یک طرفہ اور جانب دار ہے۔برطانوی نشریاتی ادارہ اپوزیشن جماعتوں کا آلہ کار بننے سے باز رہے، بے بنیاد رپورٹ سے نشریاتی ادارے کی اپنی ساکھ خراب ہوگی۔وفاقی وزیر نے بی بی سی کو دوٹوک جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے برطانوی نشریاتی ادارہ اپنی تحقیق ٹھیک کرے ۔ گپ شپ پر مبنی اسٹوری اپوزیشن اور
ملک دشمنوں کو خوش کرنے کے لیے ہو سکتی ہے۔جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ٹویٹر ہینڈلر سے سخت اور دوٹوک ردعمل جاری ہوا جس میں بی بی سی کو مشورہ دیا گیا کہ وہ کسی بھی سیاست جماعت کا آلہ کار بننے سے گریز کر ے ۔ بی بی سی کے حالیہ آؑرٹیکل پر تحریک انصاف نے کہا ہے کہ بڑے بڑے جلسے کرنے کا یہ ہر گز مطلب نہ لیا جائے کہ عوام پی ڈی ایم کے موقف کیساتھ ہے
گیارہ پارٹی مل کر بھی پاکستان تحریک انصاف سے بڑا جلسہ نہیں کر سکتیں، پی ٹی آئی آج بھی پاکستانی عوام میں مقبول جماعت ہے ۔ سوشل میڈیا صارف عمران مہمند نے بی بی سی کے آرٹیکل پر کہا ہے کہ BBCکا حالیہ آرٹیکل شرمناک ہے جس میں صحافتی اصولوں کی دھجیا ں بکھیرتے ہوئےعوام کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ عوام نے2018میں عمران خان پر جو اعتماد کا اظہار کیا
گلگت کا الیکشن اس کے”فری ایند فئیر”ہونے پر تصدیقی مہرہے۔اپوزیشن “میں نہ مانوں” کےڈگر پرعمل پیراہے۔ اسی طرح ظاہر خان نے بی بی سی کے غیر مناسب آرٹیکل پر کہا ہے کہ بی بی سی کے لئے ایک مشورہ ہے کہ کسی سیاسی بیانئے کو پروموٹ کرتے ہوئے اپنے آرٹیکل کے اوپر “Sponsored” کا لفظ ضرور لکھ دیا کریں تاکہ واضح رہے۔ اگر یہ لکھے بغیر کوئی سیاسی بیانیہ پروموٹ کریں گےتو پھر آپ صحافت نہیں بلکہ ایک سیاسی میڈیا سیل کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ایک اور صارف فضل حسیب نے
لکھا کہ کبھی امریکہ کی ایمبیسی پاکستان مخالف ایجنڈے کو سپورٹ کرتی نظر آتی کبھی بھارتی میڈیا فوج مخالف پاکستان مخالف بیانیہ پروموٹ کرتا نظر آتا اب بی بی سی کا آرٹیکل میرے پاکستانیو جب سب دشمن ایک صف میں کھڑے ہو گئے تو ہمیں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا ہے ۔بی بی سی کے آرٹیکل پر ایک صارف احسن کمال نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ حقائق کو مسخ کر کہ پی ڈی ایم بیانیے کی ترویج میں بی بی سی جیسے ادارے کا آرٹیکل شائع کرنا صحافتی اقدار کے منافی ہے۔
سوشل میڈیاصارف نے لکھا کہ کل بی بی سی نے اپنے ایک پراپگنڈہ آرٹیکل میں پی ڈی ایم کے بیانئے کو حقیقت بنا کر پیش کیا اور الیکشن 2018 کی ساکھ پر سوال اٹھایا! یہ فافن کی جانب سے الیکشن 2013 اور 2018 کا موازنہ ہے! 2018 کا الیکشن 2013 سے کہیں زیادہ شفاف تھا۔سوشل میڈیا صارف دائو د زمان کا کہنا تھا کہ بی بی سی آرٹیکل شائع کرنےسے پہلے الیکشن سے پہلے کے سروے
الیکشن کے بعد کے سروے گلگت بلتستان کے الیکشن کے نتائج اور سروے دیکھ لیتا تو بہتر تھا۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس آرٹیکل کو لکھنے والے غیر معروف صحافی الیاس خان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے چند ٹویٹس بھی شئیر کیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ الیاس خان مسلم لیگ ن کا حامی ہے اور نوازشریف کی حمایت کرتا نظر آتا ہے۔