کابل (این این آئی)افغان حکومت، طالبان سمیت تمام فریقوں کے درمیان مشترکہ نشست میں مذاکرات کے آغاز کے لیے پاکستان نے تعاون پر آمادگی ظاہر کی ہے۔افغان مفاہمی عمل کو کامیاب بنانے کیلیے مذاکرات کے اگلے2مراحل ہوں گے۔ ایک مرحلہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت اور دوسرا مرحلہ افغانستان میں موجود تمام فریقوں کے درمیان مذاکرات ہیں۔
میڈیارپورٹس کے مطابق مذاکراتی امور سے منسلک حلقوں کی کوشش ہے کہ امریکا اور افغان طالبان میں امن معاہدے کے بعد فوری طورپر اشرف غنی حکومت اور طالبان کے مابین بات چیت کا آغاز ہوجائے۔ مذاکراتی حلقے امید کررہے ہیں کہ فریقین میں رابطے جلد ہوجائیں گے اور اس حوالے سے مختلف ذرائع سے کوشش بھی کی جارہی ہے۔سفارتی حلقے سمجھتے ہیں کہ امریکا اور طالبان کے مذاکرات کے بعد مفاہمتی عمل کی کامیابی کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے مابین بات چیت کی نشست کامیاب ہو تاکہ اس معاملے کے بعد افغانستان میں موجود تمام فریقوں کے درمیان ”مشترکہ نشست“ میں بات چیت کا آغاز کرسکیں۔اس کوشش کا مقصد یہ ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے علاوہ افغانستان میں امن وامان کے مکمل قیام کے ساتھ ایک مضبوط حکومت نظام کی تشکیل ہوسکے۔ مذاکراتی عمل کے آئندہ مراحل کے لیے وقت اور مقام کا انتخاب فریقین کے درمیان رابطوں میں مثبت پیش رفت ہونے کے بعد ہوگا۔حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان، چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ میں ملاقاتوں کے درمیان افغان مفاہمتی عمل کے ساتھ ساتھ امریکا اور افغان طالبان کے مابین جاری مذاکراتی عمل کا بھی جائزہ لیا گیا۔ تینوں ممالک کے حکام سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امن کے لیے تمام فریقوں ن میں مذاکرات فوری شروع ہونے چاہئیں۔ذرائع کا کہنا تھا کہ مفاہمتی عمل کی کامیابی کیلیے تمام فریقوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز اورسیز فائز کو ممکن بنایا جائے۔
اشرف غنی حکومت بھی تمام فریقوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز چاہتی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان سے مزید تعاون کے لیے رابطے ہوئے ہیں۔پاکستانی حکام نے افغان مفاہمتی عمل کی کامیابی کیلیے اپنی قومی سلامتی کی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید”تعاون“ کیلیے گرین سگنل دیاہے۔ اس معاملے میں چین بھی اپنا تعاون جاری رکھے گا۔ان اقدامات کا مقصد خطے میں پائیدار امن عمل کو یقینی بنانا ہے۔
دریں اثناء افغان طالبان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امن مذاکرات منسوخ کر نے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کی مذاکراتی ٹیموں کے درمیان مذاکرات پایہ تکمیل کو پہنچ گئے تھے، معاہدے پر دستخط کی تاریخ 23ستمبر طے تھی، مذاکرات کر نے سے سب سے زیادہ نقصان خود امریکہ کو ہوگا، اس پر اعتبار نہیں رہے گا،اب بھی مفاہمت کی پالیسی کے موقف پر قائم ہیں،
یقین ہے امریکہ دوبارہ مذاکرات کا راستہ اپنائیگا۔ اتوار کو افغان طالبان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امن مذاکرات منسوخ کر نے پر رد عمل کا ظاہر کر تے ہوئے کہا کہ طالبان اور امریکہ کی مذاکراتی ٹیم کے درمیان انتہائی مفید مذاکرات ہونے کے بعد امن معاہدہ مکمل تیار تھا۔امریکی مذاکراتی ٹیم سات ستمبر تک ہونے والی پیشرفت سے راضی تھی اور اچھے ماحول میں مذاکرات پایہ تکمیل کو پہنچ گئے تھے دونوں فریقین معاہدے کے اعلان اور دستخط کیلئے تیاریوں میں مصروف تھے۔
معاہدے پر دستخط اور باضابطہ اعلان کے بعد 23ستمبر کو بین الافغانی مذاکرات کیلئے تاریخ طے ہوگئی تھی۔خطے اور دیگر ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے اس مذاکراتی عمل کی حمایت کی تھی۔اب جبکہ امریکی صدر ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل روک لیا ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان خود امریکہ کو ہوگا اس پر اعتبار کو نقصان پہنچے گا۔انہوں نے کہاکہ امریکہ کا امن کے خلاف موقف دنیا پر ظاہر ہوجائیگا ان کے جان و مان کے نقصان میں اضافہ اور سیاسی معاملات میں ان کا کر دار متزلزل ہو جائیگا۔مذاکرات جاری رکھنے سے طالبان نے دنیا پرثابت کر دیا کہ لڑائی ان پر زبردستی تھونپی گئی ہے اور یہ کہ لڑائی کو سیاسی عمل سے ختم کر نے کا معاملہ ہو تو طالبان اپنے اس موقف پر قائم ہیں۔
معاہد ے کے اعلان سے پہلے کابل میں ایک دھماکے کی بنیاد پر مذاکراتی عمل روکنا غیر منطقی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔بیان میں کہاگیاکہ کابل میں دھماکے سے پہلے امریکی اور ان کے حمایتی افغان سکیورٹی فورسز نے بہت سے حملوں میں سینکڑوں افغانوں کو شہید کیا۔صدر ٹرمپ کی جانب سے زلمے خلیل زاد کے ذریعے طالبان کو اگست مہینے کے آخر میں امریکہ کے دورے کی دعوت دی گئی تھی لیکن طالبان نے معاہدے پر دستخط تک یہ دعوت معطل رکھی تھی۔طالبان کی غیر متزلزل اور پختہ موقف ہے کہ ہم نے پہلے بھی مفاہمت کی بات کی تھی اور آج بھی اس موقف پر قائم ہیں، ہمیں یقین ہے کہ امریکہ بھی دوبارہ مذاکرات کا راستہ اپنائیگا۔طالبان نے کہاکہ گزشتہ اٹھارہ سال سے ہماری جدوجہد نے امریکہ پر ثابت کر دیا ہے کہ ہم غیر ملکی جارحیت کو ختم کر کے دم لینگے اس بڑے مقصد کیلئے ہم نے مسلح جدوجہد جاری رکھی ہے اور اسی راستے پر ہمارا مکمل یقین ہے۔