کابل (نیوز ڈیسک) افغانستان میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد افغان خفیہ ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی کے سربراہ محمد معصوم ستنک زئی نے استعفیٰ دے دیا، کابل میں طالبان حملے میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد افغان خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے کہا کہ وہ اپنے سامنے اتنی ہلاکتیں برداشت نہیں کر سکتے، انہوں نے اپنا استعفی افغانستان کے صدر اشرف غنی کو بھجوایا اور انہوں نے ان کے استعفے کو قبول کر لیا۔
خبر رساں ایجنسی کے مطابق افغانستان میں ایک پولیس چوکی کے نزدیک بم دھماکہ میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہو گئے جبکہ جھڑپوں میں چالیس طالبان بھی مارے گئے۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق دارالحکومت کابل کے پولیس ضلع نائن میں ایک سکیورٹی چوکی اور امریکی سفارتخانے کے قریب کار بم دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہو گئے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی حقیقی تعداد جاننے کے لئے کارروائی جاری ہے۔ دریں اثناء صوبہ بغلان میں سکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر آپریشن کرتے ہوئے خود ساختہ طالبان گورنر سمیت چالیس جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا۔افغان طالبان نے کابل میں نیٹو فوجی مشن کے ہیڈکوارٹرز اور امریکی سفارت خانے کے قریب ایک بڑا حملہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں کم از کم دس افراد ہلاک اور چالیس سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی کے مطابق یہ حملہ بارود سے بھری ایک چھوٹی بس کے ذریعے کیا گیا جبکہ تمام ہلاک شدگان عام شہری ہیں۔ ایک سرکاری بیان کے مطابق اس حملے میں کم از کم بارہ گاڑیاں بھی تباہ ہو گئیں۔دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ طالبان کے ایک خودکش حملہ آور نے افغان خفیہ ایجنسی کے مرکزی دفتر کو نشانہ بنایا اور یہ حملہ اس وقت کیا گیا، جب غیرملکی فورسز کا ایک قافلہ وہاں سے گزر رہا تھا۔ گزشتہ تین روز کے اندر اس حساس اور محفوظ سمجھے جانے والے علاقے میں ہونے والا یہ دوسرا بڑا حملہ ہے۔
امریکا کے ساتھ کسی امن معاہدے کے انتہائی قریب پہنچنے کے باوجود طالبان ایسے بڑے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔دریں اثنا کابل میں طبی حکام نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ یاد رہے کہ افغان طالبان اور امریکا جس قدر امن معاہدے کے قریب پہنچ رہے ہیں، طالبان کے حملوں میں ویسے ہی اضافہ دیکھنے میں آتا جا رہا ہے۔ آج کا حملہ بھی ایک ایسے وقت پر کیا گیا، جب امریکا کے خصوصی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد بھی کابل ہی میں موجود ہیں۔
وہ طالبان کے ساتھ ہونے والے ممکنہ معاہدے کے مسودے کے حوالے سے افغان صدر اشرف غنی اور نیٹو حکام کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس ممکنہ معاہدے پر حتمی دستخط امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی رضامندی کے بعد ہی کیے جائیں گے۔گزشتہ پیر کے روز بھی طالبان نے اس بین الاقوامی کمپانڈ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی، جہاں غیرملکی اداروں کے دفاتر اور رہائش گاہیں واقع ہیں۔ اس حملے میں بھی سولہ افراد ہلاک اور ایک سو سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ بعدازاں ایک مشتعل ہجوم نے ‘گرین ویلج نامی بین الاقوامی کمپانڈ کے ایک حصے پر حملہ کرتے ہوئے وہاں آگ بھی لگا دی تھی، جس کی وجہ سے تقریبا چار سو غیر ملکیوں کو ہنگامی طور پر وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔