واشنگٹن( آن لائن )امریکا کے سابق سیکریٹری دفاع جیمز میٹس نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے مشترکہ مفادات یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ دونوں ممالک معمولی توقعات کے ساتھ محتاط انداز میں تعلقات برقرار رکھیں۔اپنی سوانح حیات کال سائن چاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے سیکریٹری دفاع نے لکھا کہ نئی دہلی کے ساتھ پیچیدہ تعلقات نے اسلام آباد کو کابل میں دوستانہ حکومت کی خواہش پر
مجبور کیا۔جمیز میٹس کا تعلق امریکا کی مرین کارپس سے ہے جنہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنی کابینہ میں بطور سیکرٹری دفاع شامل کیا تھا، تاہم انہوں نے جنوری 2019 میں افغانستان کے معاملات پر امریکی صدر سے اختلافات پیدا ہونے پر اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔افغانستان میں امریکی فوج اور امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کی سربراہی کرنے والے جیمز میٹس افغانستان سے امریکی فوج کے فوری انخلا کے مخالف رہے ہیں۔اپنی سوانح حیات میں امریکا اور پاکستان کے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے جیمز میٹس کا کہنا تھا کہ بلآخر یہ ہمارا مشترکہ مفاد ہے کہ ہم تعاون کی معمولی توقعات کے ساتھ اپنے محتاط تعلقات برقرار رکھیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں لیکن انہیں حل کرنے کے لیے ہمارا اختلاف بہت گہرا اور بھروسہ بہت کم ہے، اور یہی آج کل ہمارے تعلقات کی حالت ہے۔اپنی کتاب کی رونمائی کے دوران انہوں نے امریکی کونسل برائے خارجہ امور کے بحث و مباحثے میں بھی حصہ لیا جہاں ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے اپنی کتاب میں پاکستان کو سب سے خطرناک ملک کیوں لکھا؟انہوں نے جواب میں پاکستان میں بنیاد پرستی کو ہی پاکستان کے سب سے خطر ناک ملک ہونے کی وجہ قرار دیا۔امریکی جنرل نے کہا کہ پاکستان میں بنیاد پرستی ہے، اور ویسے بھی ان کی فوج کے کچھ ممبران کا بھی یہی نظریہ ہے، انہیں یہ احساس ہے کہ وہاں کیا ہورہا ہے اور وہ اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے جیمز میٹس نے کہا کہ جب آپ بنیاد پرستی کو لیتے ہیں اور اس میں دنیا کی سب سے تیزی سے ایٹمی ہتھیار بنانے والی صلاحیت کو شامل کرتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ ہم یہ دیکھیں گے کہ آخر کیوں ہم ہتھیاروں کے کنڑول اور جوہدری ہتھیاروں کے عدم پھیلا کی بات کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔