کابل (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکا اور طالبان کے درمیان امن سمجھوتے کا مسودہ تیار ہو گیا ہے،امریکی صدر ٹرمپ کی حتمی منظوری کے بعد فریقین جلد اس معاہدے پر دستخط کرینگے۔ افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندہ زلمے خلیل زاد نے ایک افغان ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امن معاہدے کے بعد امریکہ افغانستان میں 135 دن کے اندر 5 فوجی اڈے خالی کر دے گا، ان اڈوں سے 5 ہزار امریکی فوجی واپس بلا لیے جائیں گے،
انہوں نے کہا کہ طالبان نے سمجھوتے کی خلاف ورزی کی تو فوجیوں کا انخلاء رک جائیگا۔یاد رہے افغانستان میں اس وقت 7 فوجی اڈوں میں 14 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔زلمے خلیل زاد نے کہا کہ اصولی طور پر معاہدہ طے پا گیا ہے اور اس معاہدے کے تحت امریکی فوج کے افغانستان سے مرحلہ وار انخلاء کے عوض طالبان القاعدہ اور داعش جیسے عسکریت پسند گروپوں کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف افغان سرزمین کے استعمال کی اجازت نہیں دیں گے۔انہوں نے کہا کہ معاہدے کا مقصد جنگ کا خاتمہ ہے اور اس معاہدے کے نتیجہ میں افغانستان میں جاری تشدد میں کمی واقع ہو گی۔زلمے خلیل زاد نے انٹرویو میں کہا کہ جنگ بندی کا کوئی رسمی معاہدہ نہیں ہوا اور اس کا تمام دارومدار افغٖانوں کے درمیان مذاکرات پر ہوگا۔ واضح رہے کہ طالبان کے ساتھ معاہدے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی ہے اور انہیں عسکریت پسند گروپ کے ساتھ مجوزہ معاہدے کا مسودہ دکھا دیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق زلمے خلیل زاد دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے کئے دور کے دوران تقریباً ایک سال کا عرصہ گزار چکے ہیں کیونکہ ان مذاکرات کا مقصد افغانستان میں جاری 18 سالہ طویل امریکی جنگ کا خاتمہ کرنا ہے۔ممکنہ معاہدہ کا مرکز امریکی فوج میں کمی، عسکریت پسندوں اور افغان حکومت کے درمیان امن مذاکرات اور جنگ بندی کے ساتھ ساتھ طالبان سے کئی ضمانتوں کے گرد گھومتا ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان اور عراق کے لیے سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد قطری دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نویں دور کے بعد گزشتہ روز کابل پہنچے تھے۔اس حوالے سے حکام کا کہنا تھا کہ انہوں نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی اور انہیں امریکاطالبان معاہدے کا مسودہ دکھایا۔یہ ملاقات اس لیے اہم تھی کیونکہ افغان حکومت اب تک اس مذاکراتی دور سے بڑی حد تک دور رہی ہے، اگر کسی حتمی معاہدے کی صورت میں طالبان کو اشرف غنی سے بات کرنا ضروری ہوگا،
جنہیں وہ امریکی کٹھ پتلی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ملاقات کے بعد افغان صدر کے ترجمان صادق صدیقی نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکا اور دیگر شراکت داروں کی کوششوں کے نتائج اس وقت برآمد ہوں گے جب طالبان براہ راست افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہوجاتے ہیں، ہمیں امید ہے کہ یہ کوششیں تنازعات کے خاتمے کا باعث بنیں گی تاہم جب ان سے معاہدے کی وضاحت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سب سے اہم یہ ہے کہ طالبان کے تشدد کو روکا جائے،
ہم پرامید ہیں کہ امریکا اور طالبان کے درمیان دستخط ہونے والا کوئی بھی معاہدے کا نتیجہ امن اور جنگ بندی کی صورت میں نکلے گا۔دوسری جانب افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ انہیں بھی ‘افغانستان میں مکمل اور پائیدار امن کے بارے میں بریفنگ اور یقین دہانی کروائی گئی تھی۔واضح رہے کہ افغان صدر کی جانب سے طالبان کے ساتھ ‘انٹرا افغان’ مذاکرات میں ملاقات کے لیے 15 رکنی وفد کا تقرر کیا تھا، یہ مذاکرات آنے والے ہفتوں میں ناروے میں ہوں گے۔علاوہ ازیں اتوار کو امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ امریکا اور طالبان معاہدے کی ‘دہلیز’ پر ہیں جو تشدد کو کم کرے گا اور یہ پائیدار امن کے لیے ایک راستہ ہوگا۔تاہم جہاں ایک طرف معاہدہ حتمی مراحل میں داخل ہوگیا ہے وہیں افغانستان بھر میں پرتشدد واقعات جاری ہیں۔ 31 اگست کو طالبان نے قندوز شہر پر قبضے کے لیے شمال سے حملہ کیا جبکہ انہوں نے بغلان صوبے کے دارالحکومت پل خمری میں بھی آپریشن کا آغاز کردیا تھا۔