استنبول (آن لائن )نیوزی لینڈ میں ایک مسجد میں حملے کے دوران بنائی گئی ویڈیو کی پوری دنیا میں مذمت کی گئی اور اسے سوشل میڈیا کی ویب سائٹوں سے ہٹا دیا گیا۔ لیکن ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کو اس ماہ کے آخر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے قبل ہونے والی انتخابی ریلی کے دوران اس ویڈیو کو بڑی سکرین پر دکھانے میں کچھ غلط نہیں لگا۔اتورا کو ہونے والی ریلی کے دوران صدر اردوغان نے اپنی تقریر روک کر مسجد کے اندر ہونے والی ہلاکتوں کی تصاویر کو ایک بہت بڑی سکرین پر دکھایا۔
انہوں نے کہا ’دنیا بھر میں لیڈر، اقوام متحدہ سمیت تمام تنظیمیں اسے اسلام اور مسلمانوں پر حملہ تسلیم کرتے ہیں، لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ ’عیسائی دہشت گرد ہے‘۔ترک صدر نے مزید کہا کہ ’اگر یہ کوئی مسلمان ہوتا تو وہ اسے اسلامی دہشت گرد کہتے۔‘ریلی میں دکھائی گئی ویڈیو میں حملہ آور کو مسجد میں داخل ہوتے ہوئے اور فائرنگ شروع کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ حملے میں کم از کم 50 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔حملہ آور نے گو پرو کیمرے کے ذریعے اس واقعے کے تمام مناظر فیس بک پر لائیو نشر کیے تھے۔ لیکن جلد ہی صارفین کے دباؤ کی وجہ سے سوشل میڈیا کمپنیاں اس ویڈیو کو ہٹانے پر مجور ہو گئی تھیں۔ فیس بک نے کہا کہ اس نے پہلے 24 گھنٹوں میں کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملے کی کم سے کم 15 لاکھ ویڈیوز اپنی سائٹ سے ہٹائیں۔ فیس بک کے مطابق اس واقعے کی ایڈٹ کی ہوئی ویڈیوز کو، جن میں گھناؤنے مناظر کاٹ دیے گئے تھے، بھی ہٹایا جا رہا ہے۔صدر اردوغان اس وقت 31 مارچ کو ہونے والے بلیداتی انتخابات کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔بی بی سی کا کہنا ہے کہ انتخابی ریلی میں اس ویڈیو کو دکھانے کا مقصد اپنی حامیوں کو متحرک کرنا ہے۔ صدر اردوغان نے اپنی تقریر میں کہا کہ دائیں بازو کے انتہا پسند حملہ آور 28 سالہ برینٹن ٹیرنٹ نے آن لائن اپنے منشور میں خاص طور پر ترکی اور استنبول کے مشہور تاریخی مقام ’ہایا صوفیا‘ کا ذکر بھی کیا ہے، جو سلطنت عثمانیہ کے دور میں مسجد میں تبدیل کیے جانے سے پہلے ’گریک آرتھوڈوکس‘ چرچ تھا اور اب ایک عجائب گھر ہے۔
انہوں نے کہا کہ حملہ آور نے سن 2016 میں دو بار ترکی کا دورہ کیا اور وہاں 40 دن گزارے۔ ترکی کے صدر نے کہا برینٹن ٹیرنٹ کے ترکی میں رابطوں کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ترکی کے صدر نے کہا کہ اگر ’مسلمان متحد ہوں تو کوئی بھی ہم پر اس طرح کے حملے نہیں کر سکتا۔ اگر مسلمانوں نے اپنے آپ کو منظم نہ کیا تو وہ ہم پر اس طرح کے حملے کر سکتے ہیں جیسے انہوں نے کیا۔ اس لیے ہم متحد رہیں گے، ہم ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے۔‘ انہوں نے اپنی سیاسی مخالف کمال کریدارولو کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ’وہ ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو اسلام سے نفرت کرتے ہیں‘۔ ان کے سیکولر مخالفین اس طرح کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
حزب اختلاف کے ایک ترجمان نے کہا کہ ’اردوغان حملے کی ویڈیو کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ ونسٹن پیٹرز نے کہا کہ انہوں نے ترکی کے حکام سے اس ویڈیو کے دکھائے جانے پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔مارک لوین کا کہنا ہے کہ ترک میڈیا نے، جو عموماً حکومت کا حامی ہے، اس واقعے کو اس طرح پیش کیا ہے جیسے ترکی کا لیڈر مسلمانوں کو ’اسلاموفوبیا‘ سے بچا رہا ہے۔ایک اخبار کی سرخی تھی ’ہم نیوزی لینڈ حملے کے متاثرین کے ساتھ ہیں جبکہ مغرب خاموش ہے۔‘ایک اور اخبار کے مطابق ’مغربی انٹیلیجنس ایجنسیاں اس حملے کی سازش میں شامل ہیں‘۔بی بی سی کے مطابق ’ملک میں دائیں بازو کے رجحانات والے طبقات میں اس طرح کی باتوں کی بہت کشش حاصل ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی صدر اردوغان کو انتخابات میں ضرورت ہے۔ اور ہمیشہ کی طرح ملک میں سیکولر اور مغرب پسند لوگوں کے لیے مایوسی بڑھ رہی ہے۔