کابل(آئی این پی)امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ بڑھتی دہشتگردی کی کارروائیوں کے باوجود اگلی ششماہی میں افغان طالبان اور حکومت مابین امن معاہدہ طے پا جائے گا،طالبان جان چکے ہیں کہ عسکریت پسندی سے وہ بھی کامیاب نہیں ہوں گے،یہ مفاہمت اور امن کے لیے ایک نادر موقع ہے،طالبان صدارتی انتخابات کا التوا اور غیر جانبدار عبوری حکومت کا قیام چاہتے ہیں۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے امید ظاہر کی ہے کہ افغانستان میں عسکریت پسندوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی کارروائیوں کے باوجود آئندہ 5 ماہ میں افغان حکومت اور طالبان میں امن معاہدہ طے پا جائے گا۔ افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے ہونے والی بات چیت کے دوسرے مرحلے کے بعد کابل لوٹ آنے پر افغان نژاد امریکی سفیر نے حیرت انگیز طور پر گزشتہ 17 سال سے جاری اس تنازع کے خاتمے کے پر مثبت ردِ عمل کا اظہار کیا۔کابل کے لیے سابق امریکی سفیر رہنے والے زلمے خلیل زاد طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات کرنے کے لیے راضی کرنے کی امریکی کوششوں کی سربراہی کررہے ہیں۔رواں برس ستمبر میں افغان حل کے لیے خصوصی طور پر سفیر بنائے جانے کے بعد انہوں نے قطر میں فریقین سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔دوسری جانب اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ افغانستان میں آئندہ برس 20 اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخابات کی وجہ سے امن کے لیے مذاکراتی عمل متاثر ہوسکتا ہے۔تاہم کابل میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ میں خاصہ پر امید ہوں مجھے امید ہے طالبان اور دیگر افغان صدارتی انتخابات سے قبل کسی حتمی امن معاہدے پر سمجھوتہ کرلیں گے۔انہوں نے بتایا کہ طالبان سمجھتے ہیں کہ وہ بھی عسکریت پسندی سے کامیاب نہیں ہوسکتے لہذا میرے خیال میں یہ مفاہمت اور امن کے لیے ایک نادر موقع ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت افغانستان ملک میں امن چاہتی ہے جس کے لیے میں تمام متعلقہ فریقین سے رابطے میں ہوں تمام افغان گروہوں کے ساتھ گفتگو جاری ہے۔طالبان رہنماں اور عسکری گروہ کے قریبی ذرائع کا کہنا تھا کہ قطر میں، جہاں ان کا سیاسی دفتر قائم ہے، امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کے ساتھ 3
روزہ مذاکرات ہوئے۔اس بارے میں تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے طالبان ذرائع نے بتایا کہ ہرات کے سابق طالبان گورنر خیراللہ خیرخواہ اور سابق طالبان آرمی چیف محمد فضل نے ان مذاکرات میں شرکت کی۔اس بارے میں ایک تیسرے ذرائع نے معلومات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ طالبان آئندہ صدارتی انتخابات کا التوا چاہتے ہیں اور اس کے بجائے ایک غیر جانبدار سربراہ کی سربراہی میں عبوری حکومت کا قیام چاہتے ہیں جس کے لیے انہوں نے تاجک
اسلامی اسکالر کا نام تجویز کیا ہے۔اس بارے میں مزید گفتگو کرتے ہوئے ذرائع نے راز داری کی شرط پر بتایا کہ زلمے خلیل زاد 6 ماہ میں کسی منطقی نتیجے پر پہنچنے کے خواہش مند ہیں لیکن طالبان کا کہنا تھا کہ یہ مدت انتہائی کم ہے۔اس کے ساتھ امریکی سفیر کی جانب سے جنگ بندی کی پیشکش بھی کی گئی جسے طالبان نے مسترد کردیا اور نہ ہی طالبان قیدیوں کی رہائی اور ان پر پابندی کے حوالے سے ابھی تک کوئی سمجھوتہ ہوسکا۔