ریاض(این این آئی)سعودی عرب میں حکام نے استنبول میں گذشتہ ماہ سعودی قونصل خانے میں معروف صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے الزام میں اب تک اکیس مشتبہ ملزموں سے تحقیقات کی ہے۔غیرملکی خبررساں ادار ے نے بتایاکہ رپورٹ کے مندرجات کے مطابق اس واقعے کا آغاز 29 ستمبر 2018ء کو ہوا تھا جب مقتول کو بات چیت کے ذریعے آمادہ کرکے سعودی عرب واپس لانے کا حکم جاری کیا گیا۔
سعودی عرب کی جنرل انٹیلی جنس پریذیڈنسی کے سابق نائب صدر نے اس مشن کے لیڈر کو یہ حکم جاری کیا تھا اورانہیں یہ ہدایت کی گئی تھی کہ اگر جمال خاشقجی بات چیت سے واپسی پر آمادہ نہیں ہوتے تو پھر انھیں زور زبردستی سے واپس لایا جائے۔اس مشن کے لیڈر نے تین گروپوں پر مشتمل ایک پندرہ رکنی ٹیم تشکیل دی تھی۔ ان میں ایک گروپ مذاکرات ، ایک انٹیلی جنس اور ایک لاجسٹیکس کا ذمے دار تھا۔ اس مشن کے لیڈر نے جنرل انٹیلی جنس پریذیڈنسی کے سابق نائب صدر کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ وہ جمال خاشقجی سے بات چیت کی ذمے داری ان کے ایک سابق ساتھی کو سونپ دیں اور وہی مذاکراتی ٹیم کی قیادت کریں کیونکہ ان صاحب کے مقتول کے ساتھ ماضی میں تعلقات رہے تھے۔ان صاحب کو ایک سابق مشیر کے ساتھ کام کرنے کی ذمے داری بھی سونپی گئی تھی۔ انٹیلی جنس کے سابق نائب صدر نے اس سابق مشیر سے رابطہ کیا تھا اور ان سے مقتول کے ماضی کے تعلق دار کو بھی اس ٹیم میں شامل کرنے اور اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی درخواست کی تھی۔اس سابق مشیر نے ا س سے اتفاق کیا تھا اور سابق تعلق دار سے مشن کے لیڈر سے ملنے کے لیے کہا تھا۔ اس سابق مشیر نے مشن کے لیڈر اور مذاکراتی ٹیم سے ملاقات کی تھی اور میڈیا میں اپنے تخصص کے حوالے سے اپنی معلومات کا تبادلہ کیا تھا۔اس نے اپنی اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ مقتول نے ایسی تنظیموں اور ریاستوں کے ساتھ تعاون کیا تھا جو سعودی مملکت کی مخالف تھیں۔اس لیے ان کے بہ قول مقتول کا سعودی عرب سے باہر رہنا قومی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہو سکتا تھا۔اس سابق مشیر نے مذاکراتی ٹیم کی مقتول کو سعودی عرب واپسی پر آمادہ کرنے کی حوصلہ افزائی کی اور ان کی واپسی اس مشن کی ایک بڑی کامیابی ہوتی۔اس مشن کے لیڈر نے ایک فورینزک ماہر سے ٹیم
میں شمولیت کے لیے رابطہ کیا تھا تاکہ اگر جمال خاشقجی کو سعودی عرب واپس لانے کے لیے طاقت کا استعمال کرنا پڑے تو اس کے ثبوت مٹائے جاسکیں۔یہ فورینزک ماہر اپنے حکام بالا کے علم میں لائے بغیر ہی اس ٹیم میں شامل ہو کر استنبول چلا گیا تھا۔مشن کے لیڈر نے ترکی میں ایک مقامی شریک ملزم سے طاقت کے استعما ل کی صورت میں متبادل انتظامات کے لیے رابطہ کیا تھا۔
اور اس نے اس مقصد کے لیے ایک محفوظ جگہ کا انتظام کرنا تھا۔مذاکراتی ٹیم کے سربراہ نے قونصل خانے کے سروے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں مقتول کو طاقت کے ذریعے وہاں سے کسی محفوظ جگہ پر منتقل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔اس لیے اس نے مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں جمال خاشقجی کو قونصل خانے ہی میں قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔
تحقیقات کے مطابق اس مذاکراتی ٹیم کے ارکان اور جمال خاشقجی کے درمیان پہلے ہاتھا پائی ہوئی تھی۔ مقتول کو زبردستی وہاں روک لیا گیا اور پھر انھیں کسی نشہ آور مہلک دوائی کا ٹیکا لگا دیا گیا اور اس کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی موت واقع ہو گئی تھی۔ تحقیقات کے نتیجے میں قتل کا حکم دینے اور اس کو عملی جامہ پہنانے والے پانچ مشتبہ افراد کی شناخت ہوچکی ہے اور انھوں نے قتل کا اعتراف کر لیا ہے۔
استغاثہ نے انھیں سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ تحقیقات کے مطابق قتل کے بعد جمال خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے گئے تھے اور اس کو قونصل خانے سے باہر کہیں ٹھکانے لگا دیا گیا تھا۔ مذکورہ پانچ ملزموں ہی نے ان کی لاش کو قونصل خانے سے باہر منتقل کیا تھا اور ان میں سے ایک نے ٹکڑے ٹکڑے جسمانی اعضاء کو اس واقعے میں ملوث ایک مقامی شخص کے حوالے کیا تھا۔
لاش حوالے کرنے والے شخص کی بھی اب شناخت ہوچکی ہے۔ ان ملزموں کے بیانات کی روشنی میں اس ترک شریک ملزم کا خاکا تیار کر لیا گیا ہے اور اس کو جلد ترک حکام کو بھیج دیا جائے گا۔ تحقیقات سے مقتول کے کپڑے پہننے والے شخص کی بھی شناخت ہوگئی ہے۔اسی نے ان کی گھڑی اور عینک سمیت دوسری ذاتی اشیاء قونصل خانے کی عمارت سے نکلنے کے بعد ایک کوڑ ے دان میں پھینک دی تھیں
۔تحقیقات سے اس ملزم کے ساتھی کی بھی شناخت ہو گئی ہے۔ تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ سعودی قونصل خانے میں نصب نگرانی کے کیمرے ناکارہ بنا دیے گئے تھے۔ یہ کام اس ٹیم میں شامل ایک ملزم ہی نے کیا تھا۔تحقیقات کے بعد اس شخص کی شناخت ہوچکی ہے۔ تحقیقات سے یہ پتا چلا ہے کہ چار مشتبہ افراد نے جرم کا ارتکاب کرنے والے ملزموں کو لاجسٹیکل سپورٹ مہیا کی تھی۔
تحقیقاتی رپورٹ کے آخر میں یہ کہا گیا ہے کہ اس مشن کے سربراہ نے مذاکراتی گروپ کے ساتھ مل کر جمال خاشقجی کے قتل کی اس گھناؤنی واردات کے بارے میں انٹیلی جنس کے سابق سربراہ کو ایک غلط رپورٹ پیش کی تھی اور یہ کہانی گھڑی تھی کہ مقتول سعودی شہری مذاکرات کی ناکامی یا زبردستی واپسی پر آمادہ نہ ہونے کے بعد قونصل خانے کی عمارت سے باہر چلے گئے تھے۔