بدھ‬‮ ، 19 فروری‬‮ 2025 

آپ نے اگر یہ کام کیا تو امت مسلمہ کے زوال کا ایک اور سلسلہ شروع ہوگا،افغان طالبان کاپاکستانی علمائے کرام کو خط ،بڑی اپیل کر دی 

datetime 24  ستمبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کابل (این این آئی) افغانستان کے طالبان نے پاکستانی علماء سے اپیل کی ہے کہ وہ افغانستان ٗ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کی علماء کانفرنسز میں شرکت نہ کریں ٗ مذکو رہ کانفرنسوں میں طالبان کے خلاف فتوی جاری کر کے جہاد کی شرعی حیثیت کو اسلامی نکتہ نگاہ سے چیلنج کیا جائیگا تاکہ کانفرنسوں کے ذریعے افغانستان میں جاری جہاد کو کمزور کر سکے ٗ

اگر امریکا اس مذموم مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے پاکستان، بھارت، وسطی ایشیا اور عرب مسلمانوں کے مصائب و مشکلات میں اضافہ ہوگا اور امت مسلمہ کے زوال کا ایک اور سلسلہ شروع ہوگا ٗدشمن آپ کی شرکت محض سے بھی فائدہ اٹھائیگا ٗ ایسے اجتماعات میں علمائے کرام جتنی بھی حق بات کر لیں ٗ دشمن اسے کوئی اہمیت نہیں دیگا۔افغان طالبا ن نے پاکستانی علمائے کرام و مشائخ عظام ایک خط لکھا ہے ’’این این آئی ‘‘ کو موصول ہونے والے خط میں کہاگیا کہ اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے امید ہے آپ صحت و عافیت کے ساتھ ہوں گے ٗہم امارت اسلامیہ افغانستان کے منسوبین و متعلقین اور تمام افغان عوام کی نمائندگی کے ساتھ نیک تمنائیں اور اسلامی اخوت کی محبتیں آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ خط میں کہاگیا کہ آپ جانتے ہیں افغانستان گزشتہ سترہ سال سے امریکا کی جارحیت کا شکار ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ افغانستان اْس کی ایک مقبوضہ ریاست بن جائے ٗوہ یہاں عسکری مراکز اور انٹیلی جنس اڈے قائم کرے تاکہ’افغانسان‘ کی اسٹریٹجک حیثیت استعمال کر کے عالم اسلام کو کمزور اور ختم کرنے کی سازشیں کر سکے۔ خط میں کہاگیا کہ اگر امریکا اس مذموم مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سے پاکستان، بھارت، وسطی ایشیا اور عرب مسلمانوں کے مصائب و مشکلات میں اضافہ ہوگا اور امت مسلمہ کے زوال کا ایک اور سلسلہ شروع ہوگا۔ خط میں کہاگیا کہ ماضی قریب کے عظیم مفکرعلامہ اقبال نی افغانستان کو ایشیا کا’دل‘ قرار دیا ہے

اگر خدانخواستہ امریکا ایشیا کا دل اجاڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس طرح ایشیا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ خط میں کہاگیا کہ تاریخ کے اس خطرناک موڑ پر نجات کا راستہ یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی جارحیت کے خلاف امارت اسلامیہ افغانستان کی جہادی صف کو مضبوط کیا جائے ٗاسے جانی، مالی اور اخلاقی تعاون پہنچایا جائے۔ خط میں کہاگیا کہ الحمد اللہ ! امارت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے 17 سال تک جارح قوتوں کے خلاف استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے۔

آپ جانتے ہیں امریکا افغانستان میں کامیاب ہونے کیلئے اپنی تمام تر عسکری طاقت آزما چکا ہے ٗوہ اپنے تمام خطرناک ہتھیار استعمال کر چکا ہے جبکہ کامیابی کا اب بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ گزشتہ سال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کیلئے اپنی نئی حکمتِ عملی سامنے لائی۔ ایک حصے کے طورپر افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل نیکولسن نے 18 مارچ 2018ء کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’’امریکا اس سال طالبان (امارت اسلامیہ) پر مختلف طریقوں سے دباؤ بڑھانا چاہتاہے۔

عسکری، سیاسی، حتی کہ مذہبی دباؤ بھی ڈالیں گے تاکہ وہ جنگ سے دست بردار ہو جائیں۔ مذہبی دباؤ سے مطلب یہ ہے کہ افغانستان، پاکستان اور کچھ دیگر ممالک کے مسلم علماء کی کانفرنسز منعقد کی جائیں گی۔ ان کانفرنسوں میں طالبان کے خلاف فتوی جاری کر کے اْن کے جہاد کی شرعی حیثیت کو اسلامی نکتہ نگاہ سے چیلنج کیا جائیگا۔ بیان میں کہاگیا کہ اب جب کہ ان کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ عنقریب،اندونیشیا، کابل اور سعودیہ کی بعد اورجھنکومیں بھی ایسے اجتماعات منعقد کیے جائیں گے

ہم علمائے کرام اور مشائخِ عظام سے یہ درخواست اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس جیسی کانفرنسوں میں شرکتِ محض سے بھی احترازکیا جائے کیوں کہ سمجھنے کی پہلی بات یہ ہے کہ اگرچہ اس کانفرنس کا موضوع اور عنوان دینی ہے ٗاسے مسلم علماء کی مجلس قرار دیا جاتا ہے، مگر اس کا ہدف اور مقصد غلط ہے۔ اس کا اصل محرِّک اسلام کا شدید مخالف امریکا ہے ٗوہ چاہتا ہے ان کانفرنسوں کے ذریعے افغانستان میں جاری جہاد کو کمزور کر سکے۔ خط میں کہاگیا کہ دوسری بات یہ ہے کہ علمائے کرام اس طرح کی کانفرنسوں میں جس نیت سے بھی شریک ہوں ٗجس مجبوری کی وجہ سے بھی شرکت کریں، دشمن بہرحال آپ کی وہاں شرکتِ محض سے بھی فائدہ اٹھائیگا ٗ ایسے اجتماعات میں علمائے کرام جتنی بھی حق بات کر لیں ٗ دشمن اسے کوئی اہمیت نہیں دے گا۔

طالبان کے خط میں کہاگیا کہ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اس طرح کی کانفرنسوں میں شرکت علماء کی معاشرتی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہے۔جس سے علمائے ٗطلباء ٗ عام مسلمان اور مجاہدین کے درمیان بداعتمادی کی فضا پیدا ہوتی ہے ٗ ہمارے جن قابل قدر علمائے عظام نے ساری زندگی مدرسہ و مسجد کے استغناء میں گزار دی ہے جو کہ للہ فی اللہ امتِ مسلمہ کے شان دار مستقبل کیلئے ایک عظیم دینی خدمت ہیہماری نظر میں علمائے کرام کی عزت و توقیر اسی میں ہے کہ ایسی مجالس سے گریز کیا جائے تاکہ اسلام دشمن قوتیں انہیں اپنے شیطانی اہداف کے لیے استعمال نہ کر سکیں۔ اللہ رب العزت ہم اور آپ سب کو دشمن کی دسیسہ کاریوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔یاد رہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے رواں ماہ دورہ افغانستان کے دور ان افغان حکام سے ملاقاتوں میں اتفاق کیا گیا تھا کہ کانفرنس کی تیاریوں کے سلسلے میں ایک اسٹیرنگ کمیٹی قائم کی جائے جس کے ذریعے دوطرفہ رابطوں کو بڑھایا جاسکے ۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



سمرقند


ازبکستان کے پاس اگر کچھ نہ ہوتا تو بھی اس کی شہرت‘…

ایک بار پھر ازبکستان میں

تاشقند سے میرا پہلا تعارف پاکستانی تاریخ کی کتابوں…

بے ایمان لوگ

جورا (Jura) سوئٹزر لینڈ کے 26 کینٹن میں چھوٹا سا کینٹن…

صرف 12 لوگ

عمران خان کے زمانے میں جنرل باجوہ اور وزیراعظم…

ابو پچاس روپے ہیں

’’تم نے ابھی صبح تو ہزار روپے لیے تھے‘ اب دوبارہ…

ہم انسان ہی نہیں ہیں

یہ ایک حیران کن کہانی ہے‘ فرحانہ اکرم اور ہارون…

رانگ ٹرن

رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003ء میں آئی اور اس نے پوری…

تیسرے درویش کا قصہ

تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا…

دجال آ چکا ہے

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…

دوسرے درویش کا قصہ

دوسرا درویش سیدھا ہوا‘ کمرے میں موجود لوگوں…