تہران (انٹرنیشنل ڈیسک)ایران کے سپریم لیڈر ( رہبرِ اعلیٰ) آیت اللہ علی خامنہ ای نے اپنے منصب پر فائز ہونے کے بعد پہلی مرتبہ یہ اعتراف کیا ہے کہ ان سے ایک غلطی کا ارتکا ب ہوا ہے اور انھوں نے غلطی یہ کی تھی کہ انھوں نے اپنے زیر نگرانی نظام کے کار پردازوں کو امریکا سمیت چھے بڑی طاقتوں کے ساتھ جوہری پروگرام پر مذاکرات کی اجازت دے دی تھی۔ان مذاکرات کے نتیجے میں
جولائی 2015ء میںایران کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک اور جرمنی کے ساتھ ایک سمجھوتا طے پایا تھا جس کے نتیجے میں ایران کے خلاف امریکا ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کا خاتمہ ہوا تھا اور انھوں نے اس کے منجمد اثاثے غیر منجمد کردیے تھے۔ایران کی سرکاری اور نیم سرکاری خبررساں ایجنسیوں نے آیت اللہ علی خامنہ ای کی سوموار کو ایک تقریر رپورٹ کی تھی۔اس میں انھوں نے جوہری سمجھوتے سمیت ایران کو درپیش مختلف داخلی اور خارجی مسائل کے بارے میں گفتگو کی تھی۔خامنہ ای نے کہا تھاکہ جوہری سمجھوتے کے لیے مذاکرات اندازے کی غلطی تھے اور میں نے ا ن مذاکرات میں بذات خود غلطی کا ارتکاب کیا تھا۔انھوں نے کہاکہ نظام کے حکام کے عزم کو دیکھتے ہوئے میں نے مذاکرات کی اجازت دی تھی حالانکہ انھوں ( مذاکرات کاروں) نے سرخ لکیر کو بھی عبور کرلیا تھا اور اسلامی جمہوریہ کے صدر نے میرے سامنے یہ اعتراف کیا تھا کہ ’’ اگر آپ کی طرف پابندیاں عاید نہ ہوتیں تو ہم مزید رعایتیں دینے کو بھی تیار تھے۔ایرانی میڈیا نے یہ بیان جاری کرنے کے تھوڑی دیر کے بعد ہی خامنہ ای کے غلطی کے اعترافی حصے کو حذف کردیا تھا اور اس کی کوئی وضاحت بھی جاری نہیں کی گئی ہے کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا ہے؟بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ خامنہ ای نے یہ اعتراف دراصل صدر حسن روحانی پر اندرونی دباؤ کم کرنے کے لیے کیا ہے کیونکہ انھیں ایران کے خلاف دوبارہ پابندیوں کے نفاذ کا ذمے دار قرار دیا جارہا ہے۔نیز اس بیان کو مستقبل میں ایران کی جوہری سمجھوتے سے دستبرداری کے لیے ایک طرح کا اجازت نامہ بھی سمجھا جارہا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری سمجھوتے سے مئی میں علیحدگی کا فیصلہ کیا تھا ۔
اس کے بعد سے ایران تین یورپی ممالک فرانس ، برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ مل کر اس سمجھوتے کو بچانے کے لیے مذاکرات کررہا ہے اور وہ یورپی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار کا تحفظ چاہتا ہے تاکہ امریکی پابندیوں کے نفاذ کے بعد اس کی معیشت پر زیادہ منفی اثرات مرتب نہ ہوں ۔ایرانی سپریم لیڈر نے اسی تقریر میں امریکا کے ساتھ کسی بھی قسم کی براہ راست بات چیت پر پابندی عاید کرنے کا اعلان کیا تھا ۔
انھوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غیر مشروط براہ راست بات چیت کی پیش کش کو بھی مسترد کردیا تھا ۔انھوں نے کہا کہ میں نے امریکا کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت پر پابندی عائد کردی ہے۔امریکیوں نے کبھی مذاکرات میں کیے گئے وعدوں کی پاسداری نہیں کی اور صرف زبانی جمع خرچ ہی کیا ہے۔وہ مذاکرات میں اپنے مقاصد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے ہیں‘‘۔