نئی دہلی (آن لائن)بھارت میں گاؤ رکشا کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام آئے روز کا معمول بن گیا ہے‘انتہا پسند ہندو اپنی ذاتی دشمنی نکالنے کیلئے بھی مسلمانوں کو گاو رکشا کے نام پر نشانہ بنانے لگے ہیں اور ایسے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی خاموش تماشائی کا کرادار اپنائے ہوئے ہیں ‘جو کہ انتہائی افسوس ناک ہے ۔
حالانکہ بھارتی پارلیمنٹ اور عدالت عظمیٰ اس ضمن میں متعدد قانون پاس کر چکی ہے کہ اقلیتوں کی جان‘مال کا تحفظ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عائد ہوتا ہے۔ایسا ہی کچھ واقعہ گزشتہ روز راجستھان ریاست کے الوار ضلع میں پیش آیا‘جہاں مشتعل ہجوم نوجوان کو بری طرح پیٹتا رہا لیکن پاس کھڑے پولیس اہلکار چائے پینے میں مصروف رہے اور نوجوان جاں بحق ہو گیا‘تاہم حکام نے ان اہل کاروں کیخلاف انکوائری کا آغاز کر دیا ہے،جنہیں مشتعل افراد کے ہاتھوں زخمی شخص کو فوری طور پر ہسپتال پہنچانا تھا،تاہم انہوں نے مبینہ طور پر اپنا چائے کا وقفہ ختم نہ کیا۔گائے کے محافظ ہندو گروہ نے ایک 28 سالہ مسلمان اکبر خان کو بری طرح سے پیٹا‘راجستھان ریاست کے الوار ضلع میں اس مشتعل ہجوم کی جانب سے اکبر خان کو شدید اذیت کا نشانہ بنایا گیا‘جس کی تاب نہ لاتے ہوئے یہ شخص فوت ہو گیا‘بتایا گیا کہ راجستھان میں کئی شاہ راہوں اور ہائی ویز پر سخت گیر ہندو کھڑے اور آتے جاتے ٹرکوں کو چیک کرتے نظر آتے ہیں۔ہندو اکثریتی ملک بھارت میں گائے کو مقدس جانور تصور کیا جاتا ہے اور اس کے مذبح پر متعدد ریاستوں میں پابندی بھی عائد ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق جب مشتعل ہجوم اس نوجوان کو پیٹ رہا تھا،ایسے میں پولیس سے مدد طلب کی گئی،تاہم مدد مانگنے والوں سے کہا گیا کہ ابھی چائے کا وقفہ ہے۔
اس دوران جو وقت ضائع کیا گیا، وہی اس نوجوان کو ہسپتال پہنچانے اور اس کی جان بچانے کے لیے ضروری تھا اور اس تاخیر کیوجہ سے اکبر خان کی جان گئی۔پولیس اہل کاروں پر یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ جائے واقعہ پر پہنچنے پر بھی انہوں نے وہاں موجود دو گائیوں کو پہلے دیکھا اور زخمی شخص کو بعد میں۔میڈیا کے مطابق پولیس اہل کار جائے واقعہ پر پہنچے اور شدید زخمی شخص کو بچانے کے لیے کوئی کارروائی کرنے کی بجائے انہوں نے گائے کچھ فاصلے پر چھاؤں میں باندھیں۔