واشنگٹن(این این آئی) امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی ( یو ایس سی آئی آر ایف ) نے دوبارہ اس بات کی تجویز دی ہے کہ پاکستان کو خاص تشویش والا ملک قرار دیا جائے لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہنے پہلے کی طرح اس سے اجتناب کیا ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق یو ایس سی آئی آر ایف کی جانب سے یہ تجاویز 2012 سے دی جارہی لیکن کامیاب امریکی انتظامیہ
مختلف بنیادوں پر اسے نظر انداز کر رہی کیونکہ اس مجوزے سے ملک میں مذہبی آزادی کو فروغ دینے میں ناکامی ہوگی۔خیال رہے کہ 22 دسمبر 2017 کو امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کی جانب سے پاکستان کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں میں شامل ہونے یا برداشت کرنے سے متعلق خصوصی واچ لسٹ میں شامل کیا تھا۔اس کے علاوہ اس اقدام کے حوالے سے میڈیا میں بیانات گردش کررہی تھیں کہ رواں سال انتظامیہ پاکستان کو خاص تشویش ناک ملک قرار دے سکتی ہے اور اس پر نئی پابندیوں کا اطلاق ہوسکتا ہے لیکن پاکستان رواں سال بھی اس میں شامل ہونے سے محفوظ رہا۔اس حوالے سے امریکی کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ برس پاکستان میں 50 افراد کو توہین مذہب کے الزام میں قید کیا گیا، جس میں 17 کو سزائے موت دی گئی۔امریکی کمیشن کی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ پاکستان میں انتظامیہ نے توہین مذہب کے قانون جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کے تحت ہونے والی سزاؤں میں عمر قید سے لے کر سزائے موت شامل ہے۔رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ مذہب کو جواز بنا کر اشتعال انگیزی کرنا ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس سے پاکستان، افغانستان، بھارت، ایران اور روس میں اقلیتیں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا بڑے پیمانے پر سامنے کر رہی ہیں۔امریکی ادارے کی رپورٹ میں مشال خان قتل کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس میں بتایا کہ اپریل 2017 میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین
مذہب کا الزام لگا کر ایک طالب علم کو تشدد کے بعد ہلاک کردیا گیا جبکہ تفتیش میں یہ الزام جھوٹا ثابت ہوا۔اس کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا کہ سال 2017 میں نامعلوم حملہ آوروں نے پاکستان میں شیعہ، ہزارہ اور احمدیوں کو نشانہ بنایا جبکہ ہزاہ برادری پر حملوں کے واقعات میں مزید اضافہ ہوا اور 5 مختلف واقعات میں 15 افراد کو قتل کردیا گیا۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان میں اردو زبان کا ذرائع ابلاغ اقلیتی گروہوں سے متعلق رپورٹ میں جانبدار رہا اور مختلف مواقع پر میڈیا نے نامناسب زبان کا استعمال کی۔