اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)مقبوضہ کشمیر میں انتہا پسند ہندوئوں کے ہاتھوں مندر میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے کے بعد قتل کر دی جانیوالی 8سالہ بچی آصفہ کے اندوہناک واقعہ نے جہاں دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور بھارت کے اندر بھی اس حوالے سےا حتجاج اور آواز بلند کی جا رہی ہے وہیں دوسری جانب بھارتیوں نے ایسا کام شروع کر دیا ہے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ
بھارتی اس قدر گھٹیا پن کا مظاہرہ کرینگے۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق آصفہ کا معاملہ سامنے آنے کے بعد فحش فلموں کی ویب سائٹس پر اس کا نام لکھ کر ویڈیو تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ کوشش اتنی مرتبہ کی گئی کہ آصفہ کا نام فحش ویب سائٹ پر سب سے زیادہ سرچ ہونے والے کی ورڈز کی لسٹ میں شامل ہو گیاہے۔رپورٹ کے مطابق بھارتیوں نے صرف آصفہ کا نام لکھ کر ویڈیو سرچ کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس کے نام کیساتھ ”ایم ایم ایس، ریپ، کلپ اور مسلم جیسے کئی دیگر الفاظ بھی لکھے۔ یہی نہیں بلکہ فحش فلمیں اپ لوڈ کرنے والے افراد نے افراد نے آصفہ کے نام کو ہیش ٹیگ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ ان کی ویڈیوز زیادہ سے زیادہ سرچ رزلٹ میں نظر آ سکیں۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ”ریڈاٹ“ پر ایک صارف نے فحش ویب سائٹ پر ’ٹرینڈنگ سرچ‘ کی تصویر شیئر کرتے ہوئے سارے معاملے کی تصدیق کی ہے۔ صارف کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے کی سچائی پرکھنے کیلئے خود ویب سائٹ پر گیا اور یہ دیکھ کر واقعی شرمندہ ہو گیا کہ یہ سچ ہے اور آصفہ کا نام ٹرینڈ ہورہا ہے“۔واضح رہے مقتولہ آصفہ بانو کے خاندان کو انتہا پسند ہندوئوں نےعلاقہ چھوڑنے پر مجبور کردیا ہے، اور سفاکیت کی حد یہ ہے کہ ہندو شدت پسندوں نے ننھی لڑکی کی تدفین کے لئے قبر کی جگہ بھی نہیں دی۔ ننھی آصفہ اور اس کے اہل خانہ
کے ساتھ انسانیت سوز سلوک پر خود بھارتی میڈیاکی رپورٹس گواہی دے رہی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے علاقہ کٹھوعہ میں ظلم کی ایسی داستان رقم کی گئی ہے جو رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے۔ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق آٹھ سالہ آصفہ بانو کی مسخ شدہ لاش کو فنانے کے لئےاس کے اہل خانہ کٹھوعہ میں قبر کھودنے میں مصروف تھے کہ اسی دوران گاؤں کے سب ہندو اکٹھے
ہو کر آ گئے اور قبر کی کھدوائی رکوا دی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ زمین مسلمانوں کی نہیں، وہ بچی کو دفن کرنے کے لئے کہیں اور لے جائیں۔ اس وقت شام ڈھل چکی تھی لیکن مظلوم آصفہ کے بے کس ورثاء کے لئے گاؤں چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ اپنے گاؤں سے نکلے اور رات کی تاریکی میں دشوار گزار پہاڑی راستوں پر چلتے ہوئے آٹھ کلومیٹر دور جا کر رکے جہاں بالآخر بچی کی تدفین کی۔
اس ویران مقام پر آصفہ کی چھوٹی سی قبر اس پر ہونے والے ظلم کی داستان بیان کرتی دکھائی دیتی ہے۔ آصفہ کے کے دادا نے اس ظلم پر آنسو بہاتے ہوئے کہا ’’اس کمسن کی لاش کے لئے کتنی زمین چاہیے تھی؟ ہماری بانہوں میں اس بچی کی لاش تھی جس کی عصمت دری کرکے اسے قتل کردیا گیا۔ ایسے وقت پر گاؤںوالوں کو بڑے دل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔‘‘کمسن آصفہ کے عزیزوں کا کہنا ہے
کہ جب اس کی لاش ملی تو وہ شام کا وقت تھا۔ آصفہ کی تدفین کے لئےجب انہوں نے قبر کھودنا شروع کی تو گاؤں کے شدت پسند ہندو جمع ہوکر آگئے اور انہوں نے آصفہ کی قبر کھودنے سے منع کردیا۔ بے بس اہلخانہ شام ڈھلنے کے بعد اپنی بچی کی لاش لے کر چلے او ررات کے اندھیرے میں آٹھ کلومیٹر کی دوری پر لیجاکر اسے دفن کیا۔