نیویارک(این این آئی) اقوام متحدہ نے کہاہے کہ دنیا بھر میں ہر مہاجر کے پاس اسمارٹ فون کی موجودگی لازم نہیں تاہم ان تارکین وطن کی قریب نصف تعداد ضرور اس جدید آلے کا استعمال کرتی ہے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے ایک بیان میں کہاکہ دنیا بھر میں ہر مہاجر کے پاس اسمارٹ فون کی موجودگی لازم نہیں تاہم ان تارکین وطن کی قریب نصف تعداد ضرور اس جدید آلے کا استعمال کرتی ہے۔
زیادہ تر افراد سوشل میڈیا اور پیغام رسانی کے ایپس کے لیے اسمارٹ فونز کی مدد لیتے ہیں۔ بہت سے تارکین وطن فیس بک، ٹوئٹر، وٹس ایپ، اسکائپ، وائبر، جی پی ایس اور گوگل میپس کا استعمال کرتے ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے ایک بیان میں کہاکہ دنیا بھر میں ہر مہاجر کے پاس اسمارٹ فون کی موجودگی لازم نہیں تاہم ان تارکین وطن کی قریب نصف تعداد ضرور اس جدید آلے کا استعمال کرتی ہے۔ زیادہ تر افراد سوشل میڈیا اور پیغام رسانی کے ایپس کے لیے اسمارٹ فونز کی مدد لیتے ہیں۔ بہت سے تارکین وطن فیس بک، ٹوئٹر، وٹس ایپ، اسکائپ، وائبر، جی پی ایس اور گوگل میپس کا استعمال کرتے ہیں۔بتایا گیا ہے کہ تارکین وطن اسمارٹ فونز پر ترجموں، راستوں کی نشان دہی، سرحدی چوکیوں، مہاجرت پر آنے والے اخراجات، سیاسی پناہ کے لیے بہتر ممالک، پولیس سے بچنے کے طریقوں، انسانوں کے اسمگلروں تک رسائی، سفر کی تصاویر حتی کہ یورپ میں مہاجرت اور دیگر پالیسیوں تک کی معلومات ان اسمارٹ فونز کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔تاہم مہاجرین کی مدد کرنے والی تنظیموں کے مطابق اس حوالے سے متعدد خطرات سے بھی تارکین وطن کو واقف ہونا چاہیے۔ ایک تو یہ کہ تمام ایپس برابر نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر وٹس ایپ میں کی جانے والی گفت گو فقط وہی افراد پڑھ سکتے ہیں، جن کے درمیان یہ گفت گو ہو رہی ہو۔
یہی وجہ ہے کہ تارکین وطن میں یہ ایپ مقبول بھی ہے اور اسے محفوظ بھی سمجھا جاتا ہے۔ فیس بک میسنجر بھی پیغامات کے لیے اینڈ ٹو اینڈ انکرپٹڈ ڈیٹا کی پیش کش کرتا ہے، تاہم یہ ڈیفالٹ نہیں ہے اور اسے ایکٹیویٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے فیس بک میسنجر پر ہونے والی گفت گو کی نگرانی قدرے آسان ہے۔