پیرس(این این آئی)مصری نڑاد معروف اسلامی اسکالر طارق رمضان کو فرانس کے دارالحکومت پیرس میں جنسی ہراسیت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ۔ان کے خلاف ایک سیکولر لبرل خاتون کارکن ہند ہ عیاری نے اکتوبر 2017ء میں درخواست دائر کی تھی اور ان پر جنسی حملے اور عصمت ریزی کا الزام عاید کیا تھا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق طارق رمضان کے خلاف یہ درخواست فرانس کے شمال مغربی شہر رویون میں عصمت
، جنسی حملے ، تشدد اور ہراسیت کے جرائم کا مرتکب ہونے کے الزام میں دائر کی گئی تھی۔تب سوئس ماہر تعلیم اور آکسفورڈ یونیورسٹی لندن میں دینیات کے پروفیسر طارق رمضان نے اپنے خلاف فرانسیسی مصنفہ ہندہ عیاری کے عاید کردہ ان سنگین الزامات کی تردید کی تھی اور انھیں من گھڑت قرار دیا تھا۔ انھوں نے اس عورت کے خلاف ہتکِ عزت کا مقدمہ چلانے کی بھی دھمکی دی تھی۔طارق رمضان مصر کی قدیم مذہبی وسیاسی جماعت (اب سرکاری طور پر کالعدم) الاخوان المسلمون کے بانی حسن البنا مرحوم کے پوتے ہیں۔وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے سینٹ انتھونی کالج کے شعبہ مشرقی علوم میں معاصر اسلامی مطالعات کے پروفیسر ہیں۔انسانی حقوق کی کارکن اور سلفی اسلام کو چھوڑ کر آزاد بننے والی ہندہ عیاری پہلے حجاب اوڑھتی رہی ہیں ۔پھر انھوں نے حجاب کو خیرباد کہہ کر آزاد ہونے کا فیصلہ کیا تھا اورمیں نے آزاد ہونے کا انتخاب کیا‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی۔یہ کتاب نومبر 2016ء میں شائع ہوئی تھی۔اس میں انھوں نے زبیر نامی ایک شخص کا ذکر کیا ہے اور وہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے ایک ہوٹل میں زبیر سے ملاقات کی تھی۔ان صاحب نے وہاں ایک لیکچر دیا تھا اور وہ سننے کے بعد وہ ملاقات کے لیے گئی تھیں۔ ہوٹل میں اس عورت کے بہ قول زبیر کے خراب نیت سے آگے بڑھنے پر وہ پیچھے ہٹ گئی تھی۔
اس پر وہ صاحب چلّائے، مجھے برا بھلا کہا ،تھپڑ رسید کردیا تھا اور تشدد آمیز سلوک کیا تھا۔جب میں پیچھے ہٹ گئی اور ڈر گئی تو ان صاحب نے پیار جتلا کر بھی آگے بڑھنے کی کوشش کی تھی۔ہندہ نے فیس بْک پر ایک پوسٹ میں لکھا تھاکہ یہ زبیر نامی شخص کوئی اور نہیں ،طارق رمضان ہیں‘‘۔اس عورت کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کی مؤکلہ نے پہلے خوف کی وجہ سے اس مبینہ جنسی حملے کی اطلاع نہیں دی تھی اور اس نے ایک طویل عرصے کے بعد اپنے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کو رپورٹ کیا تھا۔ اے ایف پی کے مطابق طارق رمضان سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا اور نہ انھوں نے اپنی گرفتاری کے حوالے سے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر کوئی بیان جاری کیا ہے۔