ایتھنز(این این آئی)انسانوں کے اسمگلروں کی مدد سے یورپ پہنچنے والے درجنوں پاکستانی مہاجرین اور تارکین وطن واپس پاکستان جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس تناظر میں بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت انہیں خصوصی مدد بھی فراہم کر رہا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والا علی نے بتایاکہ وہ گزشتہ برس ہی یونان پہنچا تھایونان پہنچنے کی خاطر وہی خطرناک راستہ استعمال کیا جو پاکستانی تارکین وطن میں کافی مقبول ہے
یعنی ایران، ترکی اور پھر یونان،میں انسانوں کے اسمگلروں کو چھ لاکھ روپے دیے تھے، جنہوں نے لیسبوس کے یونانی جزیرے پر پہنچا دیا ۔ آج کل میں یونانی دارالحکومت ایتھنز میں مقیم ہوں اور واپس پاکستان جانے کے لیے بے قرار بھی۔ایتھنز میں متعدد ایسے پاکستانی مہاجرین ہیں، جو آئی او ایم کے اس پروگرام سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم کچھ ایسے بھی ہیں جو یونان پہنچنے کے بعد اتنے زیادہ بد دل ہو چکے ہیں کہ وہ اپنے خرچے پر ہی واپس جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان میں گجرات سے تعلق رکھنے والے عدیل بھی شامل ہیں۔ایتھنز میں پاکستانی سفارتخانے کے باہر انہوں نے بتایا کہ یونان میں کوئی مستقبل نہیں، اس لیے وہ اپنے ہی پیسے خرچ کرتے ہوئے واپس پاکستان جا رہے ہیں۔عدیل کے مطابق وہ پیسہ کمانے یورپ آئے تھے لیکن یہاں حالات ایسے نہیں کہ وہ کوئی کام کر سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ انسانوں کے اسمگلروں کو خطیر رقوم دے کر یونان پہنچے لیکن یہاں ہر وقت ڈر ہی لگا رہتا ہے کہ پولیس انہیں پکڑ لے گی۔مہاجرین کے لیے بنائے گئے شیلٹر ہاؤسز کا حال بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہاں بہت ہی بری صورتحال ہے، نہ خوراک ہے اور نہ ہی طبی سہولیات۔ بہت برا حال ہے۔عدیل کہتے ہیں کہ واپس وطن جا کر کم از کم وہ آزادی سے سانس تو لے سکیں گے۔ عدیل کے بقول پاکستان میں سلامتی اور روزگار کے مسائل بہت زیادہ ہیں، جن کے باعث نوجوان یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم ان کے مطابق جیسا بھی ہو، اپنا وطن آخر اپنا ہی ہوتا ہے۔