تہران (مانیٹرنگ ڈیسک) ایران میں مہنگائی کے خلاف شروع ہونے والے مظاہرے حکومت مخالف احتجاج میں تبدیل ہوگئے ٗ مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں 4 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ٗزخمیوں میں بعض کی حالت نازک ہے جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کاخدشہ ہے۔غیرملکی میڈیا کے مطابق ایران میں مہنگائی کے خلاف شروع ہونے والے مظاہرے اب پرتشدد احتجاج میں تبدیل ہوگئے ہیں ٗایک ہی ہفتے میں انڈوں کی
قیمتیں دگنا ہونے اور ایرانی صدر کی جانب سے آئندہ بجٹ میں دیگر ممالک جانے والے اپنے مسافروں پر ٹیکس میں اضافے کی تجویز کے بعد ملک بھر میں مہنگائی کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔ تاہم مظاہرین کو روکنے کے لئے پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور واٹرگنز کا استعمال کرنے اور 52 افراد کو حراست میں لینے کے بعد یہ مظاہرے حکومت مخالف تحریک میں تبدیل ہوئے۔حکومت کی جانب سے غیرقانونی اجتماعات کے خلاف وارننگ بھی جاری کی گئی تاہم ملک بھر سے سوشل میڈیا پر احتجاج کی کالز شائع ہونے کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے مظاہروں کا سلسلہ ملک 8 شہروں تک پھیل گیا ہے ٗ اس دوران سیکیورٹی فورسز اور احتجاجی مظاہرین کے مابین جھڑپوں کے واقعات سامنے آئے۔عرب میڈیا کے مطابق ایران کے علاقے لورستان میں دورود شہر میں احتجاج کے دوران مظاہرین قابو نہ آئے تو پولیس کو فائرنگ کرنا پڑگئی جس کے نتیجے میں 4 افراد کے ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اہلکاروں کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے افراد کی شناخت محمد چوباک، محسن، یراشی، حسین رشنو اور حمزہ لشنی کے ناموں سے ہوئی ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق شہر الاھواز میں واقع عبدالحمید الخزعلی بازار میں ہونے والے ایک مظاہرے پر بھی پولیس کی فائرنگ سے متعدد شہری زخمی ہوگئے جن میں سے بیشتر کی حالت تشویشناک ہے۔مظاہرین کے قتل کے بعد مشتعل افراد نے ایک
مقامی حکومتی دفتر کو آگ لگا دی ٗمختلف شہروں میں اب مظاہرین نے ملک کے سپریم رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای اور صدر حسن روحانی کو ہٹانے کا مطالبہ بھی شروع کردیا ہے اور ان کے خلاف نعرے بازی بھی کی جاتی رہی۔دوسری جانب ایران کی بااثر فورس پاسداران انقلاب کے جنرل اسماعیل کوہساری کا کہنا ہے کہ اگر عوام قیمتوں میں اضافے کے لئے سڑکوں پر نکلیں ہیں تو یہ ان کا حق ہے لیکن اس دوران سرکاری املاک اور گاڑیوں کو نذرِآتش کرنا اور کسی کے خلاف نعرے بازی کرنا کسی طور ٹھیک نہیں، اگر سیاسی عدم استحکام جاری رہا توپھر ہمیں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا پڑے گا۔