کراچی(این این آئی)پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت رواں سال باہمی تجارت مزید گھٹ کر1.6 ارب ڈالر تک محدود ہوگئی ہے جبکہ بھارت کی جانب سے افغان تاجروں کے لیے چابہار بندرگاہ کے ذریعے ترغیبات کے ساتھ بڑھتی ہوئی تجارتی سرگرمیوں کے نتیجے میں ٹرانزٹ ٹریڈ میں مزید کمی کا خدشہ ہے۔افغانستان کے ساتھ تجارت کرنے والے پاکستانی اور افغانی تاجروں کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کے عمل میں ہرسطح پر مسائل بڑھ گئے ہیں جبکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں چمن
اور طورخم سرحدوں کے ذریعے ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولتوں میں اضافے کے مواقع سے متعلق بھی دونوں ممالک کے تاجرابہام کا شکار ہیں۔دوسری جانب سے پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے صدر جنید اسماعیل ماکڈا نے دعوی کیا ہے کہ اگر پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں سیاسی مسائل کو باہمی تجارت سے الگ کردیں اور مختلف سطح پر رکاوٹیں ختم کردیں تو پاک افغان تجارت کاحجم نہ صرف 7.5 ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ سکتا ہے بلکہ ایک لاکھ پاکستانیوں کے لیے براہ راست اور بالواسطہ طور پر روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوسکتے ہیں جبکہ پاکستان کے تجارتی خسارے پر فوری طور پر قابو پایا جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان اور افغانستان 21 جنوری 2016 کو اقوام متحدہ میں کنونشن آن انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ آف گڈز انڈر کور آف ٹی آئی آر کارنیٹس(ٹی آئی آرکنونشن) پردستخط کرچکے ہیں۔جنید اسماعیل ماکڈا نے بتایا کہ پاک افغان چیمبر کے علاوہ پاکستانی اور افغانی تاجر تاحال سی پیک منصوبے کے تحت افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولتوں سے ناواقف ہیں حالانکہ سی پیک منصوبے کے ذریعے پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے سہولتوں میں اضافہ کرکے پاکستان کو افغانستان کے توسط سے وسط ایشیا کی تمام ریاستوں تک آسان رسائی مل سکتی ہے۔پاک افغان جوائنٹ چیمبر کا موقف ہے کہ جون 2012 سے شروع ہونے والے افغان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کے تحت ٹرانزٹ کاروبار کو
بغیرکسی رکاوٹ کے جاری رکھا جائے کیونکہ اس طے شدہ معاہدے میں ایگریمنٹ ختم ہونے کی کوئی مدت یا تاریخ متعین نہیں کی گئی تھی لہذا اس معاہدے کی کسی تجدید کے بغیر دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت جاری ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ کوآرڈینیشن اتھارٹی کے توسط سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی سرگرمیوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کیا جائے، کسٹمزقوانین آسان بنائے جائیں، سرحدوں کے ذریعے ٹرانزٹ کارگوکی آمدورفت کو سہل بنایا جائے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سال2009 سے2012 کے دوران پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تجارت میں46 فیصد کی کمی ہوئی تھی لیکن جون2012میں اے پی ٹی ٹی کے نئے معاہدے پر عملدرآمد سے سال2014-15 کے وسط تک پاک افغان تجارت کا حجم65 فیصد بڑھ کر 2.5 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا تھا لیکن اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی اور غیرموافق حالات سے بھارت نے افغان مارکیٹ میں اپنا عمل دخل بڑھاتے ہوئے
چابہار بندرگاہ کے ذریعے افغانی تاجروں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں پہنچانے کی منصوبہ بندی کی جس کے نتیجے میں سال2017 میں پاک افغان تجارت کا حجم دوبارہ تنزلی کا شکار ہوگیا اور اب باہمی تجارت کا حجم گھٹ کر1.6 ارب ڈالر رہ گیا ہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے پاک افغان تجارت کے حجم میں مزید کمی کا خدشہ ہے۔جنید اسماعیل ماکڈا نے کہا کہ 2 روز قبل ہی پاک افغانستان سیاسی کشیدگی کم کرنے،تجارت بڑھانے، سیکیورٹی آپشنزاور کاونٹرٹیرارزم سے متعلق پاکستان چین
اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کا سہ فریقی ڈائیلاگ ہوا جس کا پاک افغان جوائنٹ چیمبر خیرمقدم کرتے ہوئے اپنی جانب سے بھی خدمات فراہم کرنے کی پیشکش کرتا ہے۔پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے صدر نے حکومت پر واضح کیا کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو اگر سی پیک منصوبے میں شامل کرتے ہوئے سہولتیں بڑھائی جائیں تو پاک افغان تجارت 7.5 ارب ڈالر سے بھی زیادہ رہنے کا پوٹینشل موجود ہے جبکہ دونوں ممالک کی عوام کو نہ صرف روزگار کے نئے وسیع مواقع میسر آسکتے ہیں بلکہ پاکستان کو افغانستان کے راستے وسط ایشیاکی تمام ریاستوں تک سہل رسائی مل سکتی ہے۔