اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی جو کہ امن کی نوبل انعام یافتہ اور جمہوریت پسند رہنماہے نے کہا ہے کہ جھوٹی معلومات کی وجہ سے روہنگیا بحران کو غلط پیش کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے مسلمان اقلیت کے ایک لاکھ پچیس ہزار افراد کو بنگلہ دیش جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ غیر ملکی میڈیا ذرائع کے مطابق روہنگیا بحران 25 اگست سے جاری ہے اور میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی نے اپنے پہلے
بیان میں کہا ہے کہ مختلف برادریوں میں مسائل پیدا کرنے کے لیے جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہے، ان کے مطابق اس کا ایک مقصد دہشت گردوں کے مفادات کی تشہیر بھی ہے، آنگ سان سوچی نے ترک صدر رجیب طیب اردگان کی طرف سے میانمار میں فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے خلاف مذمت اور فون کال کے بعد یہ بیان دیا۔ اسٹیٹ کونسلر آفس کے فیس بک پیجکے مطابق آنگ سان سوچی نے گزشتہ ہفتے ترکی کے نائب وزیراعظم کی طرف سے ٹویٹر پر پھیلائی گئی غلط معلومات کی مذمت کی گئی، ترکی کے نائب وزیراعظم نے روہنگیا مسلمانوں کی لاشوں کی چند تصاویر پوسٹ کی تھیں، ان تصاویر کے بارے میں ثابت ہوا کہ وہ موجودہ بحران سے تعلق نہیں رکھتیں۔ میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کا کہنا تھا کہ دہشت گردی میانمار کے لیے نئی ہے مگر حکومت اس بات کی ہر ممکن کوشش کرے گی کہ اس میں اضافہ نہ ہونے پائے اور نہ ہی یہ ریاست رکھائن میں مزید پھیلے۔ میانمار کی ریاست رکھائن میں مبینہ طور پر روہنگیا عسکریت پسندوں کی طرف سے پولیس چیک پوسٹوں پر حملوں کے بعد سے فوج کے کریک ڈاؤن میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اس کے علاوہ روہنگیا مسلمانوں کے 60 ہزار سے زیادہ گھروں کو بھی آگ کی نذر کر دیا گیا ہے۔
جب سے روہنگیا بحران کی رپورٹ میڈیا پر آئی ہے میانمار کی نوبل امن انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو عالمی برادری کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا ہے، آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں سے فوج کے برتاؤ کے خلاف بولنے سے انکار کر دیا تھا۔ آنگ سان سوچی پہلی دفعہ بولیں اور ان خبروں کو جھوٹا قرار دے دیا۔ ان کے مطابق اصل تصویر کو صحیح طور پر پیش نہیں کیا جا رہا۔