اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) قطر کے سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے اختلافات میں دھماکہ خیز موڑ، جنگ کا خطرہ، اہم اسلامی ملک کے ہزاروں فوجی پہنچ گئے، تفصیلات کے مطابق جب عرب ملکوں نے قطر کا سفارتی بائیکاٹ کیا تو اس وقت قطر نے ترکی سے فوج اور جنگی ساز و سامان کی درخواست کی جو کہ جلد منظور کر لی گئی تھی۔ العربیہ کے مطابق قطر کی جانب سے ترکی کو فوجی معاونت کے لیے درخواست پر ترک پارلیمان نے فوری جواب دیا اور درخواست منظور کرکے فوجی کمک مہیا کی۔
دوحہ کی جانب سے ترکی سے فوجی امداد فراہم کرنے کی درخواست نے ترک فوج کے لیے ایک اڈے کے قیام کی اجازت دینے کے خدشات کو مزید تقویت ملی۔ بتایا جاتا ہے کہ دوحہ میں قائم ہونے والے اس فوجی اڈے میں تین ہزار ترک فوجیوں کو تعینات کیا جائے گا۔قطر کی جانب سے صرف فوجی نفری نہیں بلکہ بھاری جنگی آلات بھی فراہم کرنے کو کہا گیا تھا۔ العربیہ کے مطابق قطر کے خلاف کسی فوجی کارروائی کا کوئی امکان موجود نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود دوحہ نے سفارتی بحران کا کہہ کر ترکی سے عسکری امداد طلب کی تھی۔ قطر کی درخواست پر خلیجی بحران کے اس عرصے میں ترکی نے چھ مرتبہ اپنے فوجی دستے قطر بھیجے۔ ترک فوج کی تعداد کے بارے دوحہ میں مختلف خبریں آتی رہتی ہیں، ترک فوج کی موجودگی کو اس بات سے تعبیر کیا جا رہا ہے کہ اس کا مقصد قطری حکومت کو گرانے کی کسی بھی سازش کو ناکام بنانا ہے۔ دوسری جانب پڑوسی عرب ملکوں کی طرف سے قطعاً قطر میں حکومت کی تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا۔ دوحہ کے دہشت گردی کی معاونت کرنے پر صرف اس کا سفارتی بائیکاٹ کیا گیا۔ فوجی کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں، العربیہ کے مطابق جنگی تیاریوں کا یہ قطری اقدام کو نہیں نیہں ہے اس سے پہلے 2014 میں بھی جب قطرکو علاقائی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا تو اس وقت بھی ترکی کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدے کیے تھے اور اسی سال امیر قطر نے سعودی عرب سے تکمیلی معاہدے پر دستخط کیے لیکن شاہ عبدالعزیز بن عبدالعزیز کی وفات کے بعد اس معاہدے سے پھر گئے۔