تل ابیب(این این آئی)اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کرنا چاہتا ہے جس کے تحت اسرائیلی ہوائی جہاز حج کرنے کے خواہش مند اسرائیلی مسلمانوں کو مکہ تک پہنچا سکیں۔ یہ اقدام دونوں ملکوں کو قریب لانے کی ٹرمپ انتظامیہ کی کوششوں کا حصہ ہے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق اسرائیلی وزیر برائے مواصلات ایوب قرا نے امید ظاہر کی کہ اسرائیل کے مسلمان شہری جلد ہی تل ابیب کے بن گوریان انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے سیدھا سعودی عرب تک پرواز کرنے کے قابل ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ فی الحال ایسے اسرائیلی مسلمانوں کو دریائے اردن اور ریگستان کو عبور کرتے ہوئے تقریبا ایک ہزار کلومیٹر کا طویل راستہ بس کے ذریعے طے کرنا پڑتا ہے۔ابھی صرف دو ماہ پہلے ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب سے پرواز کرتے ہوئے اسرائیل پہنچے تھے۔ اس پرواز سے پہلے تک سعودی عرب سے براہ راست اسرائیل کے لیے فلائٹ کو ناممکن تصور کیا جاتا تھا۔ انہوں نے کہاکہ حقیقت تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ ایسی درخواست دینے کے لیے مناسب وقت ہے اور میں اس پر انتہائی محنت سے کام کر رہا ہوں۔تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب نے سن 2002ء کے عرب امن عمل کے موقع پر اس وقت تک دونوں ملکوں کے مابین فضائی اور تجارتی تعلقات قائم نہ کرنے کا اعلان کیا تھا، جب تک اسرائیل 1967ء کی سرحدوں پر واپس نہیں چلا جاتا اور ایک علیحدہ فلسطینی ریاست قیام میں نہیں آ جاتی لیکن اب ایران کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ نے دونوں ممالک کے مابین تعاون کو ایک ’کھلا راز‘ بنا دیا ہے۔
ایوب قرا کے مطابق زائرین کے لیے حج کا سفر آسان بنانا ایسے متعدد مجوزہ منصوبوں میں سے ایک ہے، جن کا مقصد دونوں ملکوں کے مابین کسی نہ کسی طریقے سے بات چیت کا آغاز کرنا ہے۔ دوسری کئی ایک تجاویز میں تجارتی پابندیوں میں نرمی لانا، خلیجی ممالک کے ساتھ مواصلاتی رابطوں میں بہتری اور اسرائیلی ہوائی جہازوں کو فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اس طرح اسرائیل کے ایشیا کے لیے جہازوں کا نام صرف وقت بچے گا بلکہ انہیں کم پیسے خرچ کرنا پڑیں گے۔
ایوب قرا کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے سالانہ چھ ہزار عرب مسلمان شہری حج کے لیے سعودی عرب پہنچتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر گروپوں کے صورت میں بسوں میں سفر کرتے ہیں جبکہ چند سو کو اردن کا ایئرپورٹ استعمال کرتے ہوئے سعودی عرب پہنچنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ایوب قرا کے مطابق بہترین تو یہ ہے کہ مکہ آنے والے زائرین کو تل ابیب سے براہ راست سعودی عرب آنے کی اجازت دی جائے لیکن روٹ پر مذاکرات ہو سکتے ہیں،
اردن یا پھر کسی دوسرے ملک میں اسٹاپ اوور ہو سکتا ہے۔ایوب کے مطابق اس بات پر بھی مذاکرات جاری ہیں کہ حج کے لیے آنے والے اسرائیلی زائرین کو اردن کی بجائے سعودی عرب کے عارضی پاسپورٹ جاری کیے جائیں۔ ایوب قرا کے بقول انہوں نے اس حج منصوبے کے حوالے سے سعودی عرب کے حکام، اردن اور دیگر ملکوں سے بات چیت کی ہے، وہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن یہ ایک حساس معاملہ ہے اور ابھی اس پر مذاکرات جاری ہیں۔
سعودی عرب کی جنرل اتھارٹی آف سول ایوی ایشن نے فوری طور پر اس حوالے سے پوچھے گئے سوالات کا کوئی بھی جواب نہیں دیا ہے۔ دوسری جانب ہوائی کمپنی رائل اردن کے ایک ترجمان نے کہا کہ اس معاملے کے بارے میں اسرائیلی حکام نے ایئر لائن سے کوئی بھی رابطہ نہیں کیا۔ تاہم ترجمان کا کہنا تھاکہ رائل اردن حج یا عمرہ کے لیے اسرائیلی مسلمانوں کو تل ابیب سے عمان لاتی ہے اور پھر عمان سے انہیں جدہ یا مدینہ پہنچا دیا جاتا ہے، واپسی بھی ایسے ہی ہوتی ہے۔