صنعاء(آئی این پی)یمن میں غیر شادی شدہ لڑکیوں کی تعداد بڑھ کر25 لاکھ تک پہنچ گئی جن میں 5 لاکھ سے زیادہ ایسی لڑکیاں ہیں جن کی عمر 30 برس سے تجاوز کر چکی ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق یمن میں اعداد و شمار کے مرکزی ادارے کی جانب سے 2009 میں جاری رپورٹ میں ملک میں غیر شادی شدہ لڑکیوں کی تعداد کا اندازہ 20 لاکھ لگایا گیا تھا۔2016 کے آغاز میں جاری ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق غیر شادی
شدہ لڑکیوں کی شرح کے لحاظ سے یمن کا عرب ممالک میں نواں نمبر ہے جہاں یہ شرح 30 فی صد ہے۔شادی میں تاخیر یا شادی نہ ہونا یمن میں ایک اہم ترین سماجی مسئلہ بن چکا ہے جس سے یمنی خواتین کی ایک بڑی تعداد دوچار ہے۔ ان میں خاص طور پر سرگرم کارکنان ،عام زندگی میں شریک خواتین اور یونی ورسٹی کی طالبات شامل ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت اپنے سے زیادہ تعلیمی قابلیت رکھنے والی لڑکیوں کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا پسند نہیں کرتے اور وہ کم عمر لڑکیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔تحقیقی مطالعوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نوجوانوں میں شادی کی تاخیر کی متعدد وجوہات ہیں۔ ان میں معاشی صورت حال کے علاوہ خاندانوں کا مقررہ رواج اور شرائط کے ساتھ چمٹا رہنا ہے جو لڑکیوں کی جلدی شادی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ مزید برآں خود اعتمادی میں کمی ، تشویش ، تنا اور نا امیدی بھی نوجوانوں کے اندر شادی کا فیصلہ نہ کرپانے کی وجوہات میں شامل ہے۔ یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل ایک یمنی خاتون نے بتایا کہ تیس برس کی عمر ہوجانے کے بعد بھی ابھی تک اس کے لیے کوئی مناسب رشتہ نہیں آیا۔ نوجوان کم سن بیوی چاہتے ہیں اور شاید تعلیم یافتہ مضبوط شخصیت کی مالک عورت کو شریکِ حیات بنانے سے خوف زدہ ہیں۔صنعا میں لڑکیوں کے ایک ہائی اسکول کی ٹیچر لمیا علی کی عمر چالیس برس سے زیادہ ہو چکی ہے۔
کچھ عرصہ قبل 38 سے زیادہ فلاحی اور خیراتی اداروں اور سوسائٹیوں نے اجتماعی شادی اور خاندانی بہبود کے واسطے فنڈ قائم کرنے اور مہر کی رقم مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔