لندن(آئی این پی) برطانوی سپریم کورٹ نے بریگزٹ کے لئے دائر حکومتی اپیل مسترد کر دی ، عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے لئے حکومت خود سے معاہدہ لزبن کے آرٹیکل 50 کو متحرک نہیں کر سکتی، اسے پارلیمنٹ کی منظوری لینا ہو گی۔برطانوی میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ نے بریگزٹ کے لئے دائر حکومتی اپیل مسترد کر دی ہے ۔
برطانوی سپریم کورٹ نے بریگزٹ کے معاملے پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی یونین چھوڑنے کا عمل شروع کرنے سے پہلے پارلیمنٹ سے منظوری لیں تاہم اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ سے مشاورت لازم نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے گیارہ رکنی بنچ کے 8 ارکان نے پارلیمنٹ سے منظوری کے حق میں فیصلہ دیا۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) سے متعلق مذاکرات شروع کرنے سے قبل پارلیمنٹ سے لزبن ٹریٹی کی شق 50 کی منظوری لے۔
سپریم کورٹ کے ان احکامات کا مطلب ہے کہ برطانوی حکومت یورپی یونین سے علیحدگی کے مذاکرات پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر شروع نہیں کرسکتی، جس نے رواں برس مارچ میں مذاکرات کا اعلان کر رکھا ہے۔خیال رہے کہ برطانیہ میں جون 2016 میں یورپی یونین سے الگ ہونے یا اس کے ساتھ رہنے کے حوالے سے عوامی ریفرنڈم منعقد کرایا گیا تھا، جس میں عوام کی اکثریت نے یورپی یونین سے انخلاء کے حق میں ووٹ دیا تھا۔یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ پڑنے کے بعد برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون مستعفی ہوگئے تھے جبکہ نئی وزیراعظم تھریسامے نے یورپی یونین سے انخلاء سے متعلق مذاکرات رواں برس مارچ میں شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
یورپی یونین میں رکنیت حاصل کرنے یا اس سے انخلاء کے لیے لزبن ٹریٹی کی شق 50 کے تحت عمل کیا جاتا ہے، اس شق پر عمل کی صورت میں بھی مرحلہ وار برطانیہ کو یورپی یونین سے الگ ہونے میں 2 سال کا وقت لگ جائے گا۔یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرنے کے حوالے سے مذاکرات شروع کرنے پر کئی ماہ سے بحث جاری تھی کہ حکومت کو لزبن ٹریٹی کی شق 50 کی پارلیمنٹ سے منظوری لینی چاہیئے یا نہیں، جب کہ اس سے متعلق برطانیہ کی سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت بھی جاری تھی۔برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی ‘ کے مطابق سپریم کورٹ نے درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کا حکم دیا کہ یورپی یونین سے علیحدگی اور بریگزٹ اختیار کرنے سے قبل برطانوی پارلیمنٹ سے منظوری لی جائے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید ہدایات جاری کیں کہ لزبن ٹریٹی کی شق 50 کی اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ کی اسمبلیوں سے منظوری لینا لازمی نہیں ہے، یورپی یونین کا معاہدہ برطانوی حکومت سے ہوا تھا۔سپریم کورٹ کے صدر لارڈ نیوبرگر کا کہنا تھا کہ حکومت لزبن ٹریٹی کی شق 50 کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر خود استعمال نہیں کرسکتی۔عدالتی احکامات کے بعد اٹارنی جنرل جیریمی رائٹ کا کہنا تھا کہ حکومت عدالتی فیصلے سے مایوس ضرور ہوئی ہے، مگر عدالتی حکم نامے پر مکمل عمل کیا جائے گا۔واضح رہے کہ برطانوی پارلیمنٹ کے کئی ممبران بریگزٹ کے حمایت یافتہ ہیں، جب کہ عوامی ریفرنڈم پاس ہونے کے بعد خیال کیا جا رہا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ بریگزٹ کے حق میں ووٹ دے گا۔
برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے عہدہ سنبھالنے کے بعد گزشتہ ہفتے پہلی بارافواہوں اور قیاس آرائیوں کو ختم کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ برطانیہ کا یورپی یونین سے آدھا ادھورا نہیں بلکہ مکمل انخلاء ہوگا۔برطانوی وزیراعظم نے کہا کہ ’جب برطانیہ یورپی یونین سے نکلے گا تو وہ یورپی یونین کی سنگل مارکیٹ کو بھی چھوڑ دے گا‘۔قبل ازیں یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ برطانیہ بریگزٹ کے بعد بھی سنگل مارکیٹ کا حصہ رہے گا۔