اسلام آباد(این این آئی) وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہاہے کہ مسئلہ کشمیر کا اصل حل کشمیریوں کی اپنی تحریک سے نکلے گا ٗ کشمیر کے حوالے سے ہماری پالیسی بالکل واضح ہے، ہم کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے ٗتمام پڑوسی ممالک کے ساتھ پْر امن ہمسائیگی رکھنا چاہتے ہیں ٗبھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت کرینگے ٗاپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں اور بھارت کی کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
جمعہ کو قومی اسمبلی میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے حوالے سے پالیسی بیان دیتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہاکہ بھارت مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جارحیت کررہا ہے اور جان بوجھ کر شہری آبادی کو نشانہ بنارہا ہے۔انھوں نے کہا کہ خود کو مہذب ملک کہنے والا ہندوستان کشمیر میں ظلم و جبر کر رہا ہے۔سرتاج عزیز نے کہاکہ کشمیر کے حوالے سے ہماری پالیسی بالکل واضح ہے، ہم کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے۔انہوں نے کہاکہ ہم تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ پْر امن ہمسائیگی رکھنا چاہتے ہیں اور ہندوستان کے ساتھ بھی تمام مسائل پر بات چیت کریں گے،
بشرطیکہ کشمیر اس میں شامل ہو۔سرتاج عزیز نے کہاکہ ہم اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں اور بھارت کی کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ ہم کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر جارحیت سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ضیاء) کے سربراہ محمد اعجاز الحق نے کہا کہ 8 جولائی کے بعد مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی کی شہادت کے بعد کرفیو لگا ہوا ہے۔ اب تک 150 سے زیادہ افراد شہید ہو چکے ہیں اسی طرح سیکڑوں لوگ اپنی بینائی کھو چکے ہیں۔ پیلٹ گنوں میں کیمیکلز استعمال کئے جارہے ہیں۔ ہزاروں لوگ معذور ہوگئے ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی ریاستی دہشتگردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ عالمی سطح پر یہ مسئلہ اجاگر ہوا ہے۔
اس وجہ سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے ایل او سی پر حملے ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم نے پہلی مرتبہ جنرل اسمبلی میں کشمیر کے حوالے سے دو ٹوک انداز میں اپنا موقف پیش کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اور ملک عزیر برسلز گئے جہاں انہوں نے کشمیر کے حوالے سے بات کی۔ ہم نے وہاں تین دن کے اندر 30 سے 35 ملاقاتیں کیں۔ بھارتی مظالم دیکھ کر بلجیم کے سپیکر کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ہم اس دورے کی رپورٹ مرتب کرکے پارلیمنٹ میں پیش کریں گے۔ بیرون ملک سفارتخانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پالیسی امن کی ہے تاہم لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ بھارت کو سبق سکھانا چاہیے۔
اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں پیش کیا جائے۔ مشیر خارجہ کوہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں جانا چاہیے۔ ڈاکٹر شذرا منصب علی خان نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ امریکہ کے دورہ کے دوران یو ایس سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ‘ کشمیری و پاکستانی تارکین وطن سمیت اقوام متحدہ کے ذمہ داران سے ہماری ملاقاتیں ہوئیں۔ ہم نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور طویل ترین کرفیو‘ پیلٹ گنوں کے استعمال سمیت دیگر ظلم و ستم کے حوالے سے ڈوزیئر بنا کر یو ایس سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور اقوام متحدہ کے حوالے کیا۔ اقوام متحدہ میں ہم نے پاکستان اور بھارت کے بارے میں قائم ملٹری آبزرور گروپ کے ذمہ داران سے بات چیت کی جنہوں نے ہمیں بتایا کہ بھارت ہمیں مقبوضہ کشمیر میں کنٹرول لائن پر جانے کی اجازت نہیں دیتا تاہم پاکستان میں اس حوالے سے کوئی پابندی نہیں ہے
اور ہم آزادانہ لائن آف کنٹرول پر آجاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا جو انسانی حقوق کے حوالے سے اہم ملک ہے‘ وہاں پر ہم نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر میں جانوروں کے شکار کے لئے استعمال ہونے والی پیلٹ گنز استعمال کی جارہی ہیں‘ اب اس کا استعمال جانوروں کے شکار کے لئے بھی ممنوع ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران ایل او سی پر بھارتی جارحیت سے52 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی جارحیت کا مقصد عالمی سطح پر توجہ ہٹانا ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے بیرون ملک وفود بھجوائے جانے کا فیصلہ اچھا اقدام تھا۔ اہم نے اقوام متحدہ میں اس کی قراردادوں کے حوالے سے بھی یاددہانی کرائی۔ انہوں نے کہا کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا پاکستان اور بھارت کے درمیان امن قائم نہیں ہو سکے گا۔ امریکہ میں ایک فعال مشن کشمیری اور پاکستانی تارکین وطن کو کشمیر کے مسئلہ کے حوالے سے فعال بنانے اور واضح پالیسی ضروری ہے۔
جے یو آئی (ف) کی رکن قومی اسمبلی نعیمہ کشور نے کہا کہ بھارتی جارحیت کی ساری دنیا کو
مذمت کرنی چاہیے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر امن نہیں آسکتا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رکن قومی اسمبلی شیخ صلاح الدین نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بھارتی جارحیت قابل مذمت ہے اس صورتحال میں وزیراعظم اپنا کردار ادا کریں اور کسی تیسرے فریق کو اس مسئلے کو حل کرانے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان حالات میں کل وقتی وزیر خارجہ ہونا چاہیے۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کے غوث بخش مہر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم سنجیدہ اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ مسئلہ بہت بڑا ہے‘ ہمارے لئے واحد راستہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرانے کے لئے کوششیں کریں۔
بھارتی حملے قابل مذمت ہیں۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ قیام پاکستان سے اب تک صورتحال یہی رہی ہے مگر بھارتی مظالم اب انتہا تک پہنچ گئے ہیں۔ اس موقع پر ہم نے بھارت کو موثر جواب نہ دیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ وزیراعظم نے جنرل اسمبلی میں مسئلہ بھرپور انداز میں اٹھایا مگر اس کے عملی ثمرات سامنے نہیں آئے۔ پارلیمانی وفود میں اپوزیشن ارکان کو بھی نمائندگی دی جانی چاہیے تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قیصر احمد شیخ نے کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ پاکستان نے 70سالوں سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کوششیں کیں۔ بھارت کے ساتھ اس مسئلہ پر تین جنگیں ہوئیں۔ اس مسئلہ کو اجاگر کرنے کے لئے پہلی مرتبہ منتخب نمائندوں کو بیرون ممالک بھیجا۔ ہم نے برطانیہ جاکر پارلیمنٹرینز سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا اور ہماری بات سنی اور ہمیں یقین دہانی کرائی کہ وہ بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر اٹھائیں گے۔ انہوں نے تجویز دی کہ ہمیں بیرون ملک پاکستانی سفارتخانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کرنے چاہئیں۔
پیپلز پارٹی کی شاہدہ رحمانی نے کہا کہ سندھ اسمبلی نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی جنونیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بل منظور کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارتی حملے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔ ہم ان کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے دنیا کی نظریں ہٹانے کے لئے ایل او سی پر حملے کئے جارہے ہیں۔ ہم کب تک اپنے لوگوں کو صبر کی تلقین کرتے رہیں گے اور لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ سفارتی محاذ پر ہمیں سرگرمیاں تیز کرنا ہوں گی۔ مسلم لیگ (ن) کی رکن طاہرہ اورنگزیب نے کہا کہ بھارت نے کشمیر میں مظالم کی انتہا کردی ہے کسی بھی سیاسی جماعت کو اس معاملے پر پوائنٹ سکورنگ نہیں کرنی چاہیے۔
یہاں سے یکجہتی کا پیغام جانا چاہیے۔ بھارت پر زور دینا چاہیے کہ وہ کشمیر کے معاملے پر اپنا ایجنڈا واضح کرے۔ جب تک کشمیر آزاد نہیں ہوگا پاکستان سیاسی سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا اور ہم ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔ فاٹا کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر غازی گلاب جمال نے کہا کہ 1940ء میں فاٹا کے لوگوں نے کشمیر پر قبضہ کرلیا تھا مگر انہیں واپس بلا لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کی اندرونی دہشت گردی کی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے واویلا کیا کہ کشمیر میں غیر ریاستی عناصر کارروائیاں کر رہے ہیں۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد صورتحال واضح ہوئی کہ یہ کشمیریوں کی اپنی جدوجہد آزادی کی تحریک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایل او سی پر کشیدگی کے معاملے کو حکومت موثر انداز میں آگے بڑھا رہی ہے۔
کوئی بھی قدم سوچ بچار کے ساتھ اٹھانا ہوگا۔ مسرت احمد زیب نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے بارے میں کوئی بھی پاکستانی لاتعلق نہیں رہ سکتا کیونکہ یہ ہماری شہہ رگ ہے۔ پارلیمنٹ پاکستان کا سپریم ادارہ ہے یہاں سے اس مسئلے کے لئے اٹھنے والی آواز ہی اہمیت کی حامل ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہم سب ایک ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ۔ کشمیر کمیٹی کو اس معاملے پر خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ انہوں نے تجویز دی کہ پارلیمنٹ کے ارکان پر مشتمل گروپ بنا کر بیرون ملک بھیجے جائیں اس سے قبل انہیں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مکمل بریفنگ دی جائے اور ان کے ہمراہ میڈیا کو بھی بھیجا جائے۔ پیپلز پارٹی کے محمد ایاز سومرو نے کہا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے یہ مسائل کا حل نہیں ہے‘ مگر ہم کس حد تک بھارتی دہشتگردی برداشت کریں گے۔
جب تک بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دیا جائے گا بھارتی حملے جاری رہیں گے۔ مسلم لیگ (ن) ملک ابرار احمد نے کہا کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر جس انداز میں آواز اٹھائی جارہی ہے۔ پوری دنیا کو ہمارا ساتھ دینا ہوگا۔ کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ہر فورم پر اٹھایا جانا چاہیے۔ ایم کیو ایم کے محمد کمال نے کہا کہ معصوم لوگوں کو ایل او سی پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بھارت آرٹلری استعمال کر رہا ہے‘ جنگ تو چھڑ چکی ہے یہ ٹھوس حکمت عملی اپنانے کا وقت ہے۔ بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔جے یو آئی (ف) کے رکن محمد جمال الدین نے کہا کہ کشمیر کے مسئلہ پر ہمیں امریکا پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمیں خود آگے بڑھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے اس مسئلے کو سفارتی طریقہ کے مطابق حل کرنا چاہیے۔ وزیر مملکت ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ دنیا کی کوئی بھی مہذب قوم حالت جنگ میں بھی ایمبولینسوں اور معصوم اور نہتے شہریوں کو نشانہ نہیں بناتی۔ بھارتی مظالم پر دنیا کی خاموشی مجرمانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھارتی شہریوں کو نشانہ نہیں بنانا چاہتے حالانکہ پاک فوج ہر لحاظ سے بھارت کو جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن میں کئی امور پر اختلاف رائے ہوتا ہے ہم نے ہمیشہ اپوزیشن کی رائے کا احترام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن ارکان کو بھارت کے معاملے میں حکومت کو تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ اپوزیشن قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس معاملے پر اپنے رویے پر نظرثانی کرے۔ سید نوید قمر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ بھارتی حملوں کے پیچھے مقاصد کیا ہیں‘ بھارت پاکستان کو تنہا کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے بھارت کا دہشتگردی اور کشمیر کے حوالے سے پروپیگنڈہ جاری ہے۔
دنیا کے لئے بھارت ایک بڑی منڈی اور ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہمارے دوست ممالک کون ہیں اور ایران کا تعلقات کے حوالے سے اب بھی ہمارے ساتھ فاصلہ کیوں ہے۔ ہمیں دنیا کے ساتھ ساتھ تعلقات استوار کرنا ہوں گے۔ امریکی معاشرہ خود تقسیم کا شکار ہے ہمیں امریکی سول سوسائٹی اور تھنک ٹینکس کو آمادہ کرنا ہوگا۔ پالیسی سازی میں پارلیمنٹ کو فوقیت دی جائے۔ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی قائم کی جائے۔