نئی دہلی (مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت کی حکومت کے لئے دیرینہ خواہش کے باوجود سندھ طاس معاہدے کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے منسوخ کرنا ممکن نہیں ہے ایک بھارتی اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان 19ستمبر 1960 میں طے پا جانے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت چھ دریاؤں بیاس ، راوی ، ستلج ، مغربی دریائے سندھ ، چناب اور جہلم کے پانی کی تقسیم عمل میں لائی گئی اخبار کے مطابق 2010 میں جب بھارت نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشن گنگا ہائیڈرو پروجیکٹ کے 330 میگاواٹ منصوبے پر کام کا آغاز کیا تو پاکستان نے بین الاقوامی ثالثی سے بھارت کو اپنی بھرپور سفارتکاری سے اس منصوبے پر کام سے روک دیا بھارتی اخبار کی رپورٹ کے مطابق 56 برس گزرنے کے باوجود اس معاہدے پر عملدآمد بھارت کی مجبوری ہے کیونکہ پاکستان کے ساتھ 65 اور 71 کی جنگوں کے دوران بھی معاہدہ قائم رہا رپورٹ کے مطابق تقریباً ساڑھے چار کروڑ افراد براہ راست سندھ طاس منصوبے سے استفادہ کر رہے ہیں ۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت اگر جنگی حکمت عملی کے طور پر پانی کی تقسیم کے اس معائدے کو ختم کرے گا تو نہ صرف اس کی بھرپور عالمی مذمت کی جائے گی بلکہ پانی روکنے کی صورت میں خود بھارتی علاقے پانی میں ڈوب جائیں گے ۔ علاوہ ازیں سندھ طاس معاہدے کی منسوخی کی صورت میں بھارت کے دیگر ہمسایہ ممالک خصوصاً بنگلہ دیش بھی تشویش میں مبتلا ہوں گے جس کے ساتھ ہی بھارت پانی کے تقسیم کے معاہدے میں بندھا ہوا ہے لہذا بھارت اگر چاہے بھی تو اس کے لئے پاکستان کے ساتھ برسوں پرانے سندھ طاس معاہدے سے دستبردار ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے ۔ واضح رہے بھارتی حکمران جماعت سے سندھ طاس منصوبے کو توڑنے کے منصوبے پر کوششیں کی جارہیں ۔
پاکستان کیساتھ یہ کام کرنا ناممکن ہے؟؟ بھارتی میڈیا نے بڑا اعتراف کر لیا
24
ستمبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں