اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)بھارت افغانستان کو مزید اسلحہ فراہم کرے گا جبکہ بھارت میں تعینات افغان سفیرشیدا محمد ابدالی کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے فراہم کیے گئے چار ہیلی کاپٹروں کے لیے شکر گزار ہیں، طالبان ، داعش سمیت شدت پسندوں سے نمٹنے کے لئے افغان فورسز کو مزید جدید ہتھیاروں کی ضرورت ہے، اسلام آباد کے لیے بھارت اور افغانستان کے مابین عسکری تعاون پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے مگر ہمیں جنگجوؤں سے نمٹنے کیلئے اسلحہ کی سخت ضرورت ہے ۔ غیرملکی نیوز ایجنسی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ پندرہ برسوں میں بھارت افغانستان کو دو ارب ڈالر سے زائد اقتصادی امداد دے چکا ہے تاہم پاکستان کی جانب سے سخت ردعمل کے خدشے کے پیش نظر بھارت افغانستان کو اسلحہ فراہم کرنے میں محتاط رہا ہے۔گزشتہ دسمبر نئی دہلی نے افغانستان کو چار ایم آئی 25 ہیلی کاپٹر فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
کابل نے فوری طور پر ان میں سے تین ہیلی کاپٹروں کو جنگجوؤں کے خلاف کارروائیوں کے لیے وقف کر دیا تھا۔بھارت میں افغانستان کے سفیر شیدا محمد ابدالی کا کہنا ہے کہ علاقائی سکیورٹی کی صورتحال مزید بگڑ رہی ہے اور افغانستان کی افواج کو طالبان، داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی سازوسامان کی اشد ضرورت ہے۔محمد ابدالی نے بتایا ’’ہم بھارت کی جانب سے فراہم کیے گئے چار ہیلی کاپٹروں کے لیے شکر گزار ہیں۔ لیکن ہمیں مزید مدد کی ضرورت ہے۔ آج ہمیں ایک ایسی صورتحال کا سامنا ہے، جو بھارت سمیت اس پورے خطے کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔‘‘۔توقع ہے کہ 29 اگست کو افغانستان کے آرمی چیف جنرل قدم شاہ شمیم نئی دہلی کا دورہ کریں گے، جس میں وہ اس عسکری سازوسامان کی فہرست بھارت کو پیش کریں گے، جس کی افغان افواج کو ضرورت ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ بھارت کی جانب سے کتنا عسکری سامان مفت فراہم کیا جائے گا اور کتنے سامان کے لیے افغانستان نئی دہلی کو معاوضہ ادا کرے گا۔ رپورٹ کے مطابق اس فوجی سازوسامان میں مزید ایم آئی 25 ہیلی کاپٹرز، چھوٹے ہیلی کاپٹرز اور افغان افواج کے پاس موجودہ روسی ساختہ جہازوں کے لیے سازوسامان شامل ہے۔ محمد ابدالی نے مزید کہا، ’’افغان آرمی چیف اس دورے میں بھارت کے ساتھ دفاعی تعاون کو بڑھائیں گے۔‘‘کابل کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو اپنی سرزمین پر سرگرم عسکریت پسندوں کو روکنے کے لیے مزید اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ رپورٹ کے مطابق امریکا اس بات سے ناراض نہیں ہے کہ جو عسکری سامان بھارت افغانستان کو فراہم کر رہا ہے وہ روسی ساختہ ہے، یہ الگ بات ہے کہ مغرب نے روس پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔ تاہم بھارت کا کابل کے ساتھ بڑھتا عسکری تعاون پاکستان کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔
کابل کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو اپنی سرزمین پر سرگرم عسکریت پسندوں کو روکنے کے لیے مزید اقدامات اٹھانا ہوں گے، جب کہ بھارت پاکستان کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بدامنی کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ واضح رہے کہ نریندر مودی نے ایک حالیہ تقریر میں بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں کا تذکرہ بھی تھا، جس پر اسلام آباد حکومت نے شدید ناراضی کا اظہار کیا تھا۔بھارت اور پاکستان کے درمیان عسکری تعاون کے حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا ’’ہم امید کرتے ہیں کہ افغانستان بھارت کو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دے گا۔‘‘
بھارت کی افغانستان کو بھاری اسلحے کی فراہمی کس کیخلاف استعمال کیا جائے گا؟ کئی سوالات کھڑے ہو گئے
24
اگست 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں