کابل(نیوزڈیسک)افغانستان کے سرکردہ جنگی رہنما اور حزب اسلامی کے مطلوب سربراہ گلبدین حکمت یار ملک میں چار عشروں سے زائد عرصے سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے غیر ملکی فوجی دستوں کے انخلا کی اپنی بنیادی شرط سے دستبردار ہو گئے ۔ادھر افغان صدر اشرف غنی نے حکمت یار کے نئے موقف کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ حکمت یار کے تعاون سے کی جانے والی امن کوششوں کے ساتھ ملک میں خونریزی میں کمی لانے میں مدد ملے گی۔اگر یہ جنگی رہنما امن عمل میں شامل ہوتے ہیں تو حزب اسلامی وہ پہلا مسلح گروپ ثابت ہو گی، جو صدر غنی کی طرف سے کھولے گئے دروازے سے اندر آ کر امن مذاکرات میں شامل ہو گا۔میڈیارپورٹس کے مطابق گلبدین حکمت یار برسوں سے روپوش ہیں اور ان کا افغان حکومت کے ساتھ ملک میں قیام امن کے لیے مذاکرات کے سلسلے میں ہمیشہ ہی یہ مطالبہ رہا تھا کہ ہندوکش کی اس ریاست سے تمام غیر ملکی فوجوں کو نکل جانا چاہیے۔تاہم اب حزب اسلامی نامی اس پارٹی کے ایک عہدیدار اور حکمت یار کے قریبی ساتھی امین کریم نے کہا کہ اب حکمت یار کا یہ مطالبہ نہیں رہا کہ افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجی دستوں کو واپس چلے جانا چاہیے۔ افغانستان کی صورت حال پر نظر رکھنے والے کئی تجزیہ کاروں کی رائے میں اس تبدیلی کے بعد کسی حد تک یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اب اس ملک میں مسلح مزاحمت کرنے والے سبھی نہیں تو چند شدت پسند گروپوں کے ساتھ کابل حکومت کے ممکنہ امن مذاکرات مقابلتا آسان ہو جائیں گے۔گلبدین حکمت یار کو امریکا نے ایک ’عالمگیر دہشت گرد‘ قرار دے رکھا ہے تو اقوام متحدہ نے بھی انہیں بلیک لسٹ کر رکھا ہے۔ ان کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں کہیں روپوش ہیں جب کہ ان کے حامیوں کا اصرار ہے کہ وہ افغانستان ہی میں ہیں۔گزشتہ برس حزب اسلامی کے اس رہنما نے طویل عرصے تک خاموشی اختیار کیے رہنے کے بعد کابل حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے اپنی شرائط واضح کر دی تھیں۔ ان میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ ملک میں موجود تمام غیر ملکی فوجی دستوں کو وہاں سے نکل جانا چاہیے۔اس موقف کے برعکس حکمت یار کے قریبی ساتھی امین کریم نے امریکی ٹی وی کو بتایا کہ اب ’غیر ملکی فوجی انخلا حکمت یار کی کوئی شرط نہیں بلکہ ایک مقصد‘ ہے۔ ساتھ ہی امین کریم نے یہ بھی کہا کہ گلبدین حکمت یار کے حامیوں کی کوئی شرائط نہیں ہیں، ’’ہمارے صرف اصول ہیں،حزب اسلامی کے عہدیدار امین کریم نے کہاکہ ہمیں یقین ہے کہ اگر حزب اسلامی کابل حکومت کے ساتھ مکالمت کے نتیجے میں کسی امن معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تو اس عمل سے طالبان سمیت دوسرے مسلح گروپوں کے لیے بھی راستہ کھل جائے گا۔ادھر افغان صدر اشرف غنی کے دفتر نے حکمت یار کے نئے موقف کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ حکمت یار کے تعاون سے کی جانے والی امن کوششوں کے ساتھ ملک میں خونریزی میں کمی لانے میں مدد ملے گی۔صدارتی دفتر کے جاری کردہ ایک مختصر بیان میں کہا گیاکہ اگر یہ جنگی رہنما امن عمل میں شامل ہوتے ہیں تو حزب اسلامی وہ پہلا مسلح گروپ ثابت ہو گی، جو صدر غنی کی طرف سے کھولے گئے دروازے سے اندر آ کر امن مذاکرات میں شامل ہو گا۔