برلن(نیوز ڈیسک)جرمنی کی ایک عدالت نے کہا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دور میں نازیوں کے ایک اذیتی کیمپ کے ایک سابق اہلکار کے خلاف مقدمے کی سماعت فی الحال ممکن نہیں۔ اس وقت پچانوے سالہ ملزم پر ہزاروں انسانوں کے قتل میں معاونت کا الزام ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ملزم کا نام ہْوبرٹ سافکے ہے، اور عدالت ہی کے نامزد کردہ ایک ڈاکٹر نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس وقت 95 برس کی عمر کا یہ ملزم اپنی کمزور صحت کے باعث اس قابل ہی نہیں کہ اسے ایک باقاعدہ مقدمے کی سماعت کی صورت میں اس کے مبینہ جرائم کے لیے جواب دہ بنایا جا سکے۔یہ ملزم 1930ء اور 1940ء کے عشروں میں کئی برسوں تک ہٹلر دور کے ریاستی سلامتی کے ذمے دار اور ’ایس ایس‘ کہلانے والے فوجی دستوں میں طبی عملے کا ایک رکن رہا تھا، جو آؤشوِٹس کے بدنام زمانہ اذیتی کیمپ میں بھی فرائض انجام دیتا رہا تھا۔ یہ وہ نازی اذیتی کیمپ تھا، جہاں زیادہ تر یہودیوں پر مشتمل لاکھوں قیدیوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا اور جسے دوسری عالمی جنگ کے آخری مہینوں میں آزاد کرا لیا گیا تھا۔ نوئے برانڈن برگ نامی شہر میں ایک صوبائی عدالت کی طرف سے بتایا گیا کہ عدالت کے متعین کردہ ایک ڈاکٹر نے تفصیلی معائنے کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ملزم کے بڑھاپے اور کمزور صحت کے باعث اب یہ ممکن نہیں رہا کہ اس کے خلاف اس کے سات عشروں سے بھی زائد عرصہ قبل کے مبینہ جرائم کے سلسلے میں مقدمہ چلایا جا سکے۔عدالت نے ملزم کے اپنے خلاف عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے کے قابل ہونے یا نہ ہونے سے متعلق یہ طبی رپورٹ اس وقت طلب کی تھی، جب گزشتہ پیر کے روز ہْوبرٹ سافکے کے خلاف مقدمے کی سماعت مقررہ وقت پر شروع نہیں ہو سکی تھی۔ہْوبرٹ سافکے کو اپنے خلاف ان الزامات کا سامنا ہے کہ وہ آؤشوِٹس کے نازی اذیتی کیمپ میں ایک SS اہلکار کے طور پر فرائض کی انجام دہی کے دوران کم از کم بھی 3681 واقعات میں قتل میں معاونت کا مرتکب ہوا تھا۔ملزم کے خلاف مقدمے کی سماعت کی اگلی مقررہ تاریخ 14 مارچ ہے اور امکان ہے کہ اس سے پہلے متعلقہ عدالت کے حکم پر سافکے کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے چند اور ماہرین بھی اس کا تفصیلی طبی معائنہ کریں گے۔