الریاض(نیوز ڈیسک)سعودی عرب میں ایران کے لیے جاسوسی کے الزام میں جن بتیس مشتبہ افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جارہا ہے،ان کے بارے میں مزید تفصیل سامنے آئی ہے اور ان میں ایک سعودی جوہری طبیعیات دان ( نیوکلئیر فزیسٹ) بھی شامل ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق ان مشتبہ افراد کے خلاف الریاض میں ایک فوجداری عدالت میں مقدمے کی سماعت کی جارہی ہے۔سعودی اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالتی کارروائی کے دوران پتا چلا تھا کہ ان ملزموں میں ایک جوہری طبیعیات دان بھی شامل ہے۔ایران کے لیے سعودی عرب میں کام کرنے والا یہ جاسوسی رنگ تیس سعودیوں ،ایک افغان شہری اور ایک ایرانی پر مشتمل پر تھا۔افغان شہری ایک رائس ریستوراں میں باورچی کے طور پر کام کررہا تھا جبکہ ایرانی روانی سے عربی بولنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔تمام سعودی ملزموں کا تعلق سعودی عرب کے مشرقی علاقے القطیف سے ہے۔ایک سعودی مدعا علیہ ایک بنک کا سینیر عہدے دار ہے لیکن اس کا یا اس کے بنک کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔منگل کے روز عدالت میں آٹھ مدعاعلیہان کو پیش کیا گیا تھا۔ان میں چھے سعودی،ایک ایرانی اور ایک افغان تھا۔موخرالذکر ملزم کو عدالت کی جانب سے مترجم کی سہولت مہیا کی گئی تھی۔جوہری طبیعیات دان نے عدالت کو بتایا کہ وہ چین میں چھے سال تک کام کرتا رہا تھا۔جاسوسی کے الزام میں عدالتی کٹہرے میں لائے گئے مشتبہ ایرانی نے وکیل کی خدمات حاصل کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ اپنا دفاع خود کرے گا۔تاہم جج نے اس کو مشورہ دیا کہ وہ عدالت کی جانب سے مہیا کردہ قانونی وکیل کی خدمات سے استفادہ کرے۔اٹارنی جنرل نے عدالت میں ان مدعاعلیہان کے خلاف فرد الزام پڑھ کر سنائی اور انھوں نے اکتیس مدعاعلیہان کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ ایرانی کو سخت ترین اور سبق آموز سزا دینے کی مانگ کی ہے۔جج نے تمام مدعاعلیہان کو آیندہ سماعت تک اپنے تحریری جواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ان ملزموں پر عاید کردہ فرد الزام میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے ایران کے لیے ایک جاسوسی سیل قائم کیا تھا۔تہران کو خفیہ معلومات فراہم کی تھیں۔لبنان اور دوسرے علاقوں کا سفر کیا تھا جہاں انھوں نے ایرانی انٹیلی جنس کے عناصر کے ساتھ ملاقاتیں کی تھیں اور سعودی عرب کی متعدد اقتصادی اور فوجی تنصیبات کو تخریب کاری کے ذریعے اڑانے کی سازش تیار کی تھی۔