ابوظہبی (نیوز ڈیسک)متحدہ عرب امارات میں تھنک ٹینک کے طور پر کام کرنے والے مرکز ”اوریئنٹ ریسرچ سینٹر“نے کہاہے کہ یہ امر تشویش میں اضافے کا باعث بن رہا ہے کہ ایران عالمی منظرنامے میں اپنی واپسی اور ان اربوں ڈالروں کو کس طرح استعمال کرتا ہے جو غیرقانونی نیوکلیئر سرگرمیاں ختم کرنے کے عوض اس کو ملیں گے، جب کہ خطے میں ایرانی مداخلت بڑھنے کے ساتھ ساتھ تہران حکومت کی جانب سے عرب ممالک میں دہشت گردی کے لیے سپورٹ بھی جاری ہے۔غیرملکی میڈیا کے مطابق تھنک ٹینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس تشویش کا شعلہ ان متعدد مقامات خاص طور پر عراق، شام اور یمن میں تو مدھم ہوگیا ہے جہاں عربوں کا ایرانی مداخلت سے واسطہ پڑچکا ہے۔اوریئنٹ ریسرچ سینٹر کے مطابق عرب ذمہ داران کے نزدیک ایران اپنی رقوم کا جیسا چاہے استعمال کرسکتا ہے جب تک کہ وہ انہیں عربوں کے خلاف یا ان کے امور میں مداخلت کے سلسلے میں استعمال نہیں کرے گا۔سینٹر نے توقع ظاہر کی ہے کہ عالمی برادری کا عام رکن بننے کے لیے ایران سے اس بات کا مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ پڑوسی ممالک کے معاملات میں اپنی مداخلت پر روک لگائے، دہشت گردی کو سپورٹ کرنا ختم کرے، سفارتی مشنوں کا احترام کرے، تعمیری انداز سے عالمی برادری میں شریک ہو اور علاقائی اور عالمی استحکام کو برقرار رکھنے کے سلسلے میں مثبت کردار ادا کرے۔رپورٹ میں خیال کیا گیا ہے کہ ایران 1979 میں انقلاب کے بعد سے حسب معمول بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے نووارد ہے ماضی میں علاقائی دشمنانہ رویے کی وجہ سے وہ صرف عالمی سطح پر تنہائی سے ہی متصف رہا۔مرکز کے مطابق امریکی صدر اوباما نے ایران کی تنہائی ختم کرنے کی پالیسی سے متعلق اپنے دفاعی موقف کے نتائج کی ذمہ داری لی تھی.. اور خلیج کے خطے میں ہم نے حال ہی میں جو کچھ دیکھا ہے اس سے امریکی صدر کو اپنے موقف پر تشویش ہونی چاہیے۔رپورٹ کے مطابق ایرانی مرشد اعلیٰ علی خامنہ ای ہمیشہ یہ سمجھتے رہے ہیں کہ امریکا دست برداری کے مقصد کے لیے ایرانی حکومت کو دھوکا دے رہا تھا۔ رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ اب چونکہ خامنہ ای جانتے ہیں کہ یہ دھوکا نہیں تھا اور جب کہ رقوم بھی حقیقت میں ایران کی جیب میں آچکی ہیں، تو کیا وہ علاقائی سطح پر اپنی دشمنانہ پالیسی پر روک لگائیں گے؟جواب میں رپورٹ نے کہا ہے کہ اس سوال کا جواب دینے میں کوئی علی خامنہ ای کی نمائندگی نہیں کرے گا ،افغان طالبان کے لیے ایران کی سپورٹ کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ کشیدگی کے آغاز سے ہی ایران طالبان تحریک کے حوالے سے پرعزم طور پر کام کررہا ہے۔ تہران حکومت سمجھتی ہے کہ طالبان ابھی تک داعش تنظیم کی معاونت کر رہے ہیں۔ایران نے حال ہی میں تہران، مشہد اور زاہدان کے کیمپوں میں طالبان جنگجوو ¿ں کی تربیت بھی شروع کی ہے۔رپورٹ کے مطابق امریکی انٹیلجنس ادارے اس صورت حال سے پوری طرح واقف ہیں اور اس سلسلے میں تمام نقل وحرکت کا بہت باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ صدر باراک اوباما پہلے ہی اس بات پر آمادہ ہوچکے ہیں کہ ان کی آخری مدت صدارت کے دوران افغانستان میں 10 ہزار اہل کاروں پر مشتمل تربیتی اور انسداد دہشت گردی کی امریکی فورس اور اتحادی افواج کو باقی رکھا جائے۔