اسلام آباد(نیوزڈیسک) وزارت خزانہ حکام نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں بتایا کہ قانون کے مطابق یورو بانڈز خریدنے والوں کے نام نہیں بتا سکتے۔نیشنل بنک آف پاکستان کی بنگلہ دیش برانچ میں ہونے والے فراڈ کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ این بی پی نے 1994میں بنگلہ دیش میں کام شروع کیا۔2008میں تین نئی برانچیں قائم کی گئیں ذیادہ تر ملازمین بنگلہ دیشی ہیں۔لوگوں نے 170ملین کے قرضے حاصل کر کے واپس نہیں کرائے۔انکوائری کر لی گئی ہے اب ملوث لوگوں کے خلاف تفتیش شروع کر دی جائے گی۔جس پراراکین کمیٹی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوے کہاکہ 1994سے کام ہو رہا ہے2013 میں یہ ظاہر کیا گیا بیلنس شیٹ بھی غلط تیا رکی گئی ہے جس پر صدر این بی پی نے کہا کہ سٹیٹ بنک سے بھی بات کی ہے۔600لوگوں کے اکاوئنٹس تھے جنہوں نے ادھار لئے تھے اس حوالے سے ہمیں تین رپورٹیں آئی تھیں۔اب یہ کیس بورڈ کی منظوری کے بعدنیب کے حوالے کر دیاگیا ہے۔ بہتری کے لئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں ا و رکوشش کی گئی ہے کہ آئندہ ایسے معاملات نہ ہو سکیں جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس حوالے سے جو بھی پیش رفت ہو قائمہ کمیٹی کو تفصیل سے آگاہ کیا جائے۔