واشنگٹن(نیوز ڈیسک)امریکا پاکستان، افغانستان، لیبیا، صومالیہ اور یمن کے علاوہ عراق اور شام میں ڈرون حملوں کا جواز مہیا کرنے میں نا کام ہو گیا،امریکی عوام سمیت عا لمی برا دری اوباما انتظامیہ کے ڈرون پروگرام کی بنیادی شفافیت اور اسکی قانونی حیثیت سے ابھی تک لا علم ہیں ،واشنگٹن میں قائم تھِنک ٹینک اسٹمسن سنٹرکے مطابق امریکایہ بات ثابت کرنے میں تقریبا ناکام رہا ہے کہ خونریز ڈرون حملے کیوں ضروری ہیں۔لیکن اس کے باوجود دنیا بھر میں امریکی بغیر پائلٹ طیاروں سے کیے جانے والے حملوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسٹمسن سنٹرکے مطابق صدر باراک اوباما کی انتظامیہ اپنے ڈرون پروگرام کے بارے میں بنیادی شفافیت ظاہر کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ڈرون حملے امریکا کی انسداد دہشت گردی کوششوں میں بنیادی حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔اس اسٹڈی کی مصنفہ راچل اسٹوہل نے فرا نسیسی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’اس پروگرام کا جواز اور قانونی حیثیت ابھی تک امریکی عوام کی پہنچ سے دور ہیں۔‘‘ تازہ رپورٹ میں ایک اسکول کے رپورٹ کارڈ کی طرح مختلف گریڈز دیے گئے ہیں۔ یہ گریڈز اسٹمسن سنٹر کی طرف سے جون 2014ئمیں ڈرون حملوں کی مذمت کے بارے میں جاری کردہ رپورٹ کے بعد حکومت کی طرف سے ڈرون پروگرام کے حوالے سے پیشرفت پر دیے گئے ہیں۔اس رپورٹ کارڈ میں اوباما انتظامیہ کو تین مختلف حوالوں سے ناکامی کا یعنی “F” گریڈ دیا گیا ہے۔ ان میں ڈرون حملوں کے بارے میں معلومات جاری کرنا، شفافیت کے لیے بہتر طریقہ کار ترتیب دینا اور امریکا کے خطرناک ڈرون پرگرام کے بارے میں قانونی جواز مہیا کرنا شامل ہیں۔عسکریت پسندی کے خلاف عالمی سطح پر مسلسل پھیلتی ہوئی جنگ میں امریکا ڈرونز پر کافی زیادہ انحصار کرتا ہے۔ بغیر پائلٹ اڑنے والے طیاروں کے ذریعے نہ صرف خطرناک زمینی علاقوں کی نگرانی کی جاتی ہے بلکہ مشتبہ شدت پسندوں کے خلاف میزائل حملے بھی کیے جاتے ہیں۔امریکی صدر باراک اوباما نے اپنی مدت کے دوران ڈرون پروگرام کو کافی زیادہ وسعت دی ہے، تاہم ان کی انتظامیہ کی طرف سے ڈرون حملوں کے بارے میں بہت ہی محدود معلومات فراہم کی جاتی ہے۔اسٹمسن سنٹر کے مطابق اب کم از کم ایک درجن ممالک ایسے ہیں جہاں امریکی ڈرون طیاروں کے اڈے موجود ہیں۔ناقدین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ڈرون حملوں میں عام شہری ہلاک ہوتے ہیں اور یہ حملے دراصل مقامی آبادی کو زیادہ بنیاد پرستی اور شدت پسندی کی طرف دھکیلنے کا باعث بن رہے ہیں۔جون 2014ء4 کے بعد سے امریکا افغانستان، لیبیا، پاکستان، صومالیہ اور یمن کے علاوہ عراق اور شام میں داعش کے خلاف ڈرون حملے کرتا رہا ہے۔ اسٹمسن سنٹر کے مطابق اب کم از کم ایک درجن ممالک ایسے ہیں جہاں امریکی ڈرون طیاروں کے اڈے موجود ہیں۔ ان میں ایتھوپیا اور یمن بھی شامل ہیں۔دوسری طرف امریکی سی آئی اے کے سابق سربراہ مائیکل ہیڈن کہتے ہیں، ’’ہدف بنا کر قتل کیے جانے کا پروگرام مسلح تنازعات کی تاریخ میں فائر پاور کا سب سے زیادہ درست اور مؤثر استعمال ہے۔‘‘ نیویارک ٹائمز میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈرونز نے دراصل القاعدہ کی اعلیٰ قیادت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔تاہم اسٹمسن سنٹر کا کہنا ہے کہ اس طرح کے دعوے اس وقت تک بے معنی ہیں جب تک عوامی سطح پر وہ ایسے اعدادوشمار جاری نہیں کیے جاتے جو ان دعووں کی تائید کریں۔ ڈرون حملوں اور ان سے ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں محدود اعداد وشمار صحافیوں، مانیٹر گروپوں اور خفیہ معلومات عام کرنے والوں کی طرف سے جمع کیے گئے ہیں۔