اسلام آباد(نیوز ڈیسک)شدت پسند تنظیم داعش اپنے کیمپوں میں موجود کم سن ارکان کو “خلافت کے ننھے شیر” کا نام دیتی ہے۔ ہالینڈ کی انٹیلجنس رپورٹ کے مطابق ان ننھے شیروں میں کم از کم 70 بچے ہالینڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔رپورٹ میں ان بچوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلی قسم ان بچوں کی ہے جو عراق یا شام میں پیدا ہوئے جب کہ دوسری قسم میں وہ بچے شامل ہیں جن کے گھر والے گزشتہ دو سالوں کے دوران داعش کے مضبوط گڑھ میں جابسے۔اس عرصے میں ہزاروں غیرملکی جنگجوؤں نے شام اور عراق کا رخ کیا جن میں 200 سے زیادہ ہالینڈ کے شہری ہیں، ان میں 50 خواتین بھی ہیں۔ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ کے مصداق ،،، رپورٹ میں اس زندگی کی تاریک تصویر کا خاکہ کھینچا گیا ہے جس کو داعش خلافت کے زیر سایہ حیات قرار دیتی ہے۔ اور درحقیقت یہ اس سنہری پرکشش تصویر کے برعکس ہے جس کا داعش تنظیم جنگجوؤں کو اپنی طرف بلانے کے لیے خواب دکھاتی ہے۔غیر ملکیوں کے داعش کے مراکز پہنچتے ہی خواہ وہ الرقہ (شام) میں ہوں یا الموصل (عراق) میں، مردوں اور خواتین کو علاحدہ کردیا جاتا ہے۔تنظیم میں شمولیت کے خواہش مند افراد کو طویل دورانیے تک مکمل تحقیقات سے گزرنا پڑتا ہے تاکہ اس امر کی تصدیق کی جاسکے کہ آیا یہ لوگ جاسوس تو نہیں۔عورتوں کو شدید تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ بچوں کی پیدائش اور ان کی پرورش جیسی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے گھر کے اندر تک محدود رہتی ہیں، جب کہ کم سن بچیوں کو نو سال کی عمر سے پردہ کرنا لازم ہوتا ہے۔جہاں تک بچوں کی بات ہے تو وہ چھ سال کی عمر سے اسکول جاتے ہیں اور انہیں دو زبانیں انگریزی اور عربی سکھائی جاتی ہیں۔ ان بچوں کو داعش کے شدت پسندی پر مبنی عقائد اور نظریات کی تلعیم اور قتال کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ ساتھ ہی روزانہ کے معمول کے طور پر ان افراد کی سزائے موت کے مناظر بھی دکھائے جاتے ہیں جن پر داعش کی عدالتیں قتل کا حکم جاری کرتی ہیں۔داعش کے کئی علاقوں کو امریکا کے زیرقیادت اتحادی افواج کی فضائی بمباری کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جس کے سبب ان بچوں کے سامنے موت کا یا زخمی ہوجانے کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے جب کہ ساتھ ہی ساتھ اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو کھودینے کا بھی قوی اندیشہ ہوتا ہے۔