اسلام آباد (این این آئی)سینٹ کوبتایاگیا ہے کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں‘ دوطرفہ تجارت بڑھی ہے‘ سرحد پر داخلی مقام پر بائیو میٹرک سسٹم نصب کیا جائےگا ¾ اسلام آباد میں سڑکوں کی بحالی کےلئے تین ارب روپے مختص کئے گئے ہیں‘ زیروپوائنٹ سے روات تک سگنل فری روڈ بنے گا۔منگل کو وقفہ سوالات کے دور ان سید طاہر حسین مشہدی کے سوال کے جواب پر وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر خان نے ایوان کو بتایا کہ پاکستان اور افغانستان نے 2010ءمیں آپٹا پر دستخط کئے‘ بین الاقوامی تجارت کی روایات کے مطابق راہداری اشیاءپر کوئی ڈیوٹیاں اور رائیلٹی لاگو نہیں کی جاتی لہٰذا راہداری سے براہ راست کوئی آمدنی حاصل نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کو پاکستان نے سمندر تک رسائی دی ہوئی ہے اس سے ہمارے ملک میں کاروبار میں اضافہ ہوتا ہے۔ افغانستان میں سامان منگوانے اور افغانستان سے باہر بھیجنے پر ٹرانزٹ کمپنیوں کو آمدنی حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ قانونی تجارت میں اضافہ ہوا ہے اور پچھلے سال اڑھائی ارب ڈالر کی اشیاءپاکستان کی بندرگاہوں کے ذریعے منتقل کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ چین اور طورخم کے بارڈر پر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے چیکنگ کا نظام متعارف کرایا گیا ہے۔ اب کنٹینرز کے ذریعے تجارت کو فروغ دیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرحد پر داخلی مقام پر بائیو میٹرک سسٹم نصب کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ طورخم اور چین سرحد پر لینڈ پورٹ کا ادارہ قائم کیا جائے گا جس سے تجارت کو قانونی ضابطے میں لایا جاسکے گا۔ اس سلسلے میں جلد ہی پارلیمنٹ میں سینٹر پورٹ اتھارٹی کا بل پیش کر دیا جائے گا۔وزیر مملکت برائے کیپٹل ایڈمنسٹریشن و ڈویلپمنٹ ڈویژن ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے بتایا کہ اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں سڑکوں کی بحالی کے لئے تین ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس رقم سے سڑکوں کی ری کارپٹنگ‘ لین مارکنگ اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ زیرو پوائنٹ سے فیض آباد تک سڑک کی توسیع کی گئی ہے۔ فیض آباد سے کرال چوک تک تین اوور ہیڈ پلوں پر جلد کام شروع ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں نئی سڑکیں بھی بنائی جائیں گی جس سے ٹریفک کا مسئلہ حل کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایف الیون کی غربی روڈ پر کام جاری ہے۔ مارگلہ روڈ کو ڈی 12 کے ذریعے جی ٹی روڈ سے ملایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ فیض آباد سے روات تک ایکسپریس وے سگنل فری بنایا جارہا ہے، آئی جے پرنسپل روڈ کی بحالی کا بھی منصوبہ ہے‘ سالوں میں نہیں مہینوں میں ہمارے اقدامات کے نتائج نظر آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سڑکوں کی تعمیر کے دوران اگر درخت کاٹے جاتے ہیں تو نئے پودے لگائے بھی جاتے ہیں۔ اگلے چند دنوں میں ایک بڑی شجرکاری مہم شروع کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے اسلام آباد ایئرپورٹ کے لئے پانی کا مسئلہ حل ہوگیا ہے جبکہ رابطہ سڑکیں بنائی جارہی ہیں ¾سینیٹر اعظم سواتی کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹر طارق فضل نے ایوان کو بتایا کہ سی ڈی اے کے 95 افسران کی تنخواہیں تعلیمی اسناد جمع نہ کرانے کی وجہ سے اکتوبر میں روک دی گئی تھیں جس کے بعد 74 افسران نے اسناد جمع کرادیں ¾ جمع نہ کرانے والے 21 افسران کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کئے گئے جس کے بعد 21 میں سے 19 افسران نے اپنی اسناد جمع کرادیں جبکہ دو افسران نے ابھی تک اظہار وجوہ کے نوٹس کا جواب نہیں دیا۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے ایوان کو بتایا کہ جو ایئرپورٹس بند کئے گئے ہیں وہ 90دن کے نوٹس پر دوبارہ چالو کئے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیالکوٹ کا ایئرپورٹ مقامی افراد کی مالی معاونت سے بنایا گیا ہے اور کوئی ایئرپورٹ کسی فرد یا افراد کی مالی معاونت سے نہیں بنایا گیا۔کابینہ ڈویژن کی طرف سے بتایا گیا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران سوات‘ شمالی علاقہ جات اور ملک کے دیگر سیاحتی مقامات کا بڑی تعداد میں غیر ملکی سیاحوں نے دورہ کیا۔ سیاحت کے ویزے پر آنے والوں کی تعداد 4 ہزار 273 تھی جن میں سے 175 نے وادی سوات اور 3758 نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا۔ شہری ہوابازی ڈویژن کی طرف سے تحریری جواب میں بتایا گیا کہ ڈرائی لیز پر 18 طیارے حاصل کئے گئے ہیں۔ پی آئی اے اپنے بزنس ڈویلپمنٹ پلان کی تیاری کر رہی ہے اور بورڈ آف ڈائریکٹرز اور حکومت کی طرف سے اس کی منظوری کے بعد اضافی طیاروں کا حصول عمل میں لایا جائے گا۔ وزارت کیپٹل ایڈمنسٹریشن و ڈویلپمنٹ ڈویژن کی طرف سے بتایا گیا کہ سی ڈی اے نے ہاﺅسنگ سکیموں کے سپانسرز کی جانب سے خلاف ورزیوں کا جائزہ لیا ہے۔ زون ٹو‘ زون فائیو اور سیکٹر ای الیون میں منظور شدہ تمام سکیموں کے نقشہ جات میں خلاف ورزیاں کی گئی ہیں جس پر ان کو نوٹس جاری کئے ہیں اور دو این او سیز اور 9 منظور شدہ نقشے منسوخ یا واپس کردیئے گئے ہیں۔وزارت کی طرف سے ایک اورسوال کے جواب میں تحریری طورپر بتایا گیا کہ سیکٹر آئی الیون کی کچی آبادیوں میں حالیہ آپریشن کے دوران غیر قانونی مکینوں کو کوئی مالی معاونت نہیں دی گئی۔ سی ڈی اے آرڈیننس 1960ءکے مطابق غیر قانونی رہائشیوں اور قابضین کی آباد کاری کے لئے قانونی دفعات موجود نہیں ہیں۔