لندن (نیوزڈیسک) سوئٹرز لینڈ کی علاقائی پارلیمان نے ایک نیا قانون متعارف کرواتے ہوئے عوامی مقامات برقعہ یا نقاب پہننے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق سوئٹزرلینڈ کے جنوب میں واقع علاقے ٹیچینو میں اب اگر کوئی بھی خاتون عوامی مقامات پر کپڑے سے نقاب کرے گی تو وہ ایک جرم کی مرتکب ہو گی۔ بتایا گیا ہے کہ نہ تو دکانوں، نہ پبلک عمارتوں، نہ ریستورانوں اور نہ ہی ڈرائیونگ کرتے ہوئے نقاب پہننے کی اجازت ہو گی۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو تقریبا دس لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔بتایا گیا ہے کہ اس نئے قانون کا اطلاق اس علاقے میں آنے والے سیاحوں پر بھی ہوگا۔ تاہم چہرہ ڈھاپنے کے لیے استعمال کی جانے والی دیگر اشیاءجیسے کہ ماسک اور ہیلمٹ وغیرہ پہننے کی اجازت ہے۔ اس کے علاوہ ایسے اسکارف بھی پہنے جا سکتے ہیں، جن سے بال اور گردن تو ڈھانپی جا سکے لیکن چہرہ نظر آئے۔گزشتہ پیر کے روز قانون سازی سے پہلے نقاب پر پابندی سے متعلق علاقائی سطح پر ریفرنڈم بھی کروایا گیا تھا۔ سن دو ہزار تیرہ میں کروائے گئے اس ریفرنڈم میں وہاں کی دو تہائی عوام نے اس کی حمایت کی تھی۔اس علاقے میں نقاب کی مخالفت میں پیش پیش جورجیو گرینگ ہیلی کا مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”یہ ملک میں موجود مسلمان انتہاپسندوں کے لیے پیغام ہے۔“اس سابق صحافی اور سیاستدان کا کہنا تھا، ”جو معاشرے میں ضم ہونا چاہتے ہیں، انہیں مذہب سے قطع نظر خوش آمدید کہا جائے گا لیکن وہ جو ہماری اقدار کے مخالف ہیں اور مذہبی قوانین کی بنیاد پر ایک متوازی معاشرے کی تعمیر چاہتے ہیں، ان کا خیر مقدم نہیں کیا جا سکتا۔“انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس ووٹنگ کو ”ٹیچینو میں انسانی حقوق کے لیے ایک سیاہ دن قرار دیا ہے۔“ٹیچینو میں لاگو کیا گیا یہ قانون بالکل ویسے ہی قانون کی طرح ہے، جیسا کہ فرانس میں لاگو کیا گیا تھا۔ سن دو ہزار دس میں فرانس وہ پہلا یورپی ملک تھا، جس نے نقاب پر پابندی عائد کی تھی۔ سن دو ہزار چودہ میں یورپئین کورٹ آف ہیومن رائٹس نے بھی اس قانون کو برقرار رکھا تھا جبکہ اسی طرح کے قوانین بیلجیم اور ہالینڈ میں بھی منظور کیے جا چکے ہیں۔