اسلام آباد(نیوزڈیسک)داعش کا خطرہ بڑھ رہا ہے یا پھر عالمی قوتیں ایسا ماحول اور حالات پیدا کررہی ہیں جو دنیا کو تیزی سے تیسری جنگ عظیم یا ایٹمی جنگ کی طرف کھینچ کر لے جارہی ہے اور کیا روس اور ترکی کے درمیان بڑھتی سرد جنگ اس جانب پہلا قدم ہے، اس تیسری جنگ عظیم کے خطرات کا اظہار اب سوشل میڈیا پر بھی ہونے لگا ہے اور ایک روسی فوجی تجزیہ نگار نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ دنیا تیزی سے ایٹمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے۔روسی فوجی تجزیہ نگار پیول فیلگن ہاورکے تجزئیے کو عالمی سطح پر بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ترک فوج نے شام کی سرحد کے قریب اس کی سرحد کی خلاف ورزی کرنے والے روسی طیارے کو مار گرایا جس پر روس نے ترکی کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس سے فوجی تعلقات منقطع کرتے ہوئے دھمکی دی کہ ترکی کو خطرناک نتائج کا سامنے کرنا پڑ سکتا ہے لیکن اگلے ہی روز بظاہر یہ تو کہہ دیا کہ روس ترکی سے جنگ نہیں کرنا چاہتا جب کہ اس بیان کے بالکل برعکس لمبے فاصلے تک مارک کرنے والے میزائل شکن نظام ترکی کی سرحد سے صرف 30 میل کے فاصلے پر نصب کردیا ہے جن سے روس کے عزائم کا انداہ لگایا جا سکتا ہے۔ ادھر نیٹو اور امریکی افواج بھی داعش کے خلاف کارروائی کی آڑ میں جدید ترین اسلحہ شام کی سرحد کے قریب جمع کر رہے ہیں۔امریکی تنظیم دی آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اس وقت روس کے 7700 ایٹمی ہتھیار سرگرم ہیں جن میں سے 4500 ذخیرہ میں جب کہ 1548 میزائل اور ایئر بیسز پر نصب کیے گئے ہیں جب کہ یہ امر حیرت سے خالی نہیں کہ صرف 200 ایٹمی ہتھیار پوری دنیا کی تباہی کے لیے کافی ہیں۔ روس میں ایٹمی جنگ کے آغاز کے لیے لگایا گیا 4 منٹ وارننگ سسٹم 1992 میں ختم کردیا گیا ہے لہٰذا جنگ کے الارم کے لیے اب یہ سائرن کسی کو سنائی نہیں دے گا بلکہ اب یہ اعلان موبائل فون پر پیغام کرکے دیا جائے گا جب کہ اس نئے میسج سسٹم کو 2013 میں نیشنل سیکورٹی کونسل گلاسگو میں ٹیسٹ کر لیا گیا تھا۔