اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) روسی اور ایرانی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ ترک فضائیہ کے ہاتھوں رشین ایئر فورس کے طیارے کی تباہی کا سن کر روسی صدر شدید اشتعال میں آ گئے تھے۔ انہوں نے سفارتی آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے فوری طور پر ترک سفیر کو طلب کیا اور سخت نازیبا الفاظ کی بوچھاڑ کر دی۔ ریڈیو ایران کے مطابق اس موقع پر ولادی میر پیوٹن نے ترک صدر طیب اردگان کو ڈکٹیٹر قرار دیتے ہوئے انہیں قتل کرنے کی دھمکی دی۔ روسی صدر نے ترک سفیر کو یہ وارننگ بھی دی کہ جلد ہی ترکی پر بمباری کر کے اس کے شہروں کو کھنڈر بنا دیا جائے گا۔ دوسری جانب روسی خبر رساں ایجنسی اتارتاس نے بھی پیوٹن کی بدتہذیبی کی تصدیق کی ہے۔ اتارتاس کے مطابق روسی صدر نے ترکی کے ساتھ تمام فوجی تعلقات منقطع کر دیئے ہیں اور اپنی وزارت سیاحت کو احکامات دیئے ہیں کہ ترکی کی سیاحت کو جانے والے تمام روسیوں کو روک دیا جائے۔ واضح رہے کہ ترکی میں سیاحت کیلئے آنے والوں میں سے بیس فیصد تعداد روسی شہریوں کی ہوتی ہے۔ ادھر ترک جریدے ڈیلی حریت کے مطابق ترک سیاحتی ایسوسی ایشن نے روس پر واضح کیا ہے کہ ترکی اپنی فضائی خودمختاری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ پیوٹن کو معلوم ہونا چاہئے کہ ترکی ایک آزاد و خودمختار ملک ہے جو معاشی یا فوجی تعلقات توڑنے سے نہیں ڈرے گا۔ پیوٹن کے نازیبا رویے پر غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے لکھا ہے کہ روسی صدر کے ساتھ ترک سفیر کی ڈھائی گھنٹے جاری رہنے والی ملاقات انتہائی ناخوشگوار رہی۔ ادھر سی این این ترکی نے وزارت دفاع کی جانب سے جاری فوٹیج اپنی نشریات میں دکھائی ہے۔ جس میں روسی طیارے نے پانچ سے زائد مرتبہ ترکی کی سرحد پار کی۔ سرحدی خلاف ورزی پر ترکی کے دو عدد ایف سولہ طیاروں نے روسی طیارے کو گھیر لیا اور پائلٹ کو واپس جانے کی وارننگ دی تاہم روسی پائلٹ نے ان کی وارننگ نظرانداز کر دی۔ کم از کم دس بار انتباہ کرنے کے بعد آخرکار روسی طیارے کو فضاءسے فضاءمیں مار کرنے والے راکٹ سے نشانہ بنا کر تباہ کر دیا گیا۔ادھر روسی پارلیمنٹ میں سرکاری اور اپوزیشن ارکان کی جانب سے لائی جانے والی قرار داد میں صدر پیوٹن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ترکی اور روس کا فضائی رابطہ ختم کر دیا جائے اور اگر ترکی معافی طلب نہ کرے تو اس سے سفارتی تعلقات توڑ لئے جائیں۔ دوسری طرف ترک نیوز ایجنسی اناطولیہ نے واضح کیا ہے کہ روسی طیاروں نے ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں میں دس بار ترک سرحدوں کی خلاف ورزی کی جس کاڈیٹا اقوام متحدہ اور نیٹو کو دے دیا گیا تھا۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں