پیرس(نیوزڈیسک)پیرس حملے، جنگجوو¿ں کی لاشوں کے نزدیک ملنے والے پاسپورٹس نے نیا تنازعہ کھڑا کردیا،ماہرین نے سوال اٹھایا ہے کہ دہشت گردوں کی جانب سے اپنے پاس پاسپورٹ رکھنا ہی متنازعہ ہے جب کوئی اتنی سنگین کارروائی کررہا ہو تو اپنے پاس شناختی دستاویزات کیوں رکھے؟ یا تو یہ پاسپورٹ تحقیقات کو غلط راہ پر ڈالنے کی کوشش ہیں یا پھر کچھ اور۔فرانس کے دارالحکومت پیرس میں تباہ کن حملے کرنے والے جنگجوو¿ں کی لاشوں کے نزدیک سے شامی اور مصری پاسپورٹس ملے ہیںجس کے بعد ملزمان کے خلاف مزید تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ فرانسیسی پولیس نے ایک حملہ آور کی لاش کے نزدیک سے شامی پاسپورٹ ملنے کی تصدیق کی ہے لیکن یہ نہیں بتایا ہے کہ اس کو یہ پاسپورٹ کہاں سے پڑا ہوا ملا ہے۔البتہ اس نے کہا ہے کہ تفتیش کار حملوں میں شامی تعلق کے مفروضے پر کام کررہے ہیں۔فرانسیسی ذرائع کے حوالے سے بتایاگیا ہے کہ شامی پاسپورٹ پیرس کے فٹ بال اسٹیڈیم کے نزدیک خود کو دھماکے سے اڑانے والے ایک حملہ آور کی لاش کے نزدیک پڑا ہوا ملا تھا۔جمعہ کی شب پیرس میں چھ مقامات پر مسلح حملہ آوروں نے فائرنگ اور بم دھماکے کیے تھے جس سے ایک سو اٹھائیس افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ان تباہ کن حملوں کے بعد قریباً تین سو زخمیوں کو اسپتال داخل کیا گیا ہے۔ان میں اسّی کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔عراق اور شام میں برسرپیکار سخت گیر جنگجو گروپ داعش نے ان حملوں کی ذمے داری قبول کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے آٹھ جنگجوو¿ں نے یہ حملے کیے ہیں۔فرانس کے ایک پراسیکیوٹر نے بھی کہا ہے کہ دارالحکومت کے مختلف علاقوں میں آٹھ مسلح حملہ آور مارے گئے ہیں اور ساتویں جگہ پر حملہ کرنے والے ابھی تک مفرور ہیں۔عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ باٹاکلان کنسرٹ ہال پر دھاوا بولنے والے حملہ آوروں نے پہلے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ ہم فرانس سے زیادہ مضبوط ہیں۔بعض دوسرے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ مسلح افراد نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ شام میں فرانس کے حملوں کے ردعمل میں یہ پ±رتشدد کارروائی کررہے ہیں۔فرانسیسی لڑاکا طیارے ستمبر سے شام میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کررہے ہیں۔