تہران(نیوزڈیسک)ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے چھ بڑی طاقتوں کے ساتھ جولائی میں طے پائے جوہری معاہدے کی توثیق کردی ہے لیکن انھوں نے صدر حسن روحانی کی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اس کو چوکنا رہنا ہوگا کیونکہ امریکا پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ۔میڈیارپورٹس کے مطابق آیت اللہ علی خامنہ ای نے صدر حسن روحانی کے نام معاہدے کی توثیق کے لیے ایک خط لکھا اور یہ ان کی ویب سائٹ پر بھی بدھ کو شائع کیا گیا ہے،ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل سے نشر کیے گئے اس خط میں انھوں نے کہا کہ ایران آگے بھی جاسکتا تھا لیکن اب سمجھوتے میں موجودابہاموں پر نظر رکھی جانی چاہیے،انھوں نے کہا کہ امریکی صدر براک اوباما نے انھیں دو خط بھیجے ہیں اور ان میں انھیں یقین دہانی کرائی ہے کہ امریکا ایران میں علماءکی حکومت کو ہٹانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ انھوں نے جوہری معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ملک کی سپریم قومی سلامتی کونسل کے فیصلے کی منظوری دے دی ہے مگر اس کونسل کو معاہدے پر عمل درآمد کی کڑی نگرانی کرنی چاہیے تاکہ ملک کے مستقبل کو کسی ممکنہ نمایاں نقصان سے بچایا جاسکے۔خامنہ ای نے یہ بھی کہا ہے کہ ایران اپنی افزودہ یورینیم کے ذخیرے یا آراک میں واقع بھاری پن کے جوہری ری ایکٹر سے دستبردار نہیں ہوگا جب تک کہ متنازعہ جوہری پروگرام کی ممکنہ فوجی نوعیت (پی ایم ڈی) کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوجاتا ہے۔انھوں نے کہا کہ آراک اور یورینیم کو بیرون ملک بھیجنے سے متعلق کوئی بھی اقدام پی ایم ڈی فائل بند ہونے کے بعد ہی کیا جائے گا۔واضح رہے کہ ایرانی پارلیمان نے 13 اکتوبر کو مغربی طاقتوں کے ساتھ طے شدہ تاریخی جوہری معاہدے کی منظوری دی تھی۔ایران اور چھے بڑی طاقتوں کے درمیان قریباً دوسال کی مسلسل سفارت کاری کے بعد 14 جولائی کو یہ جوہری معاہدہ طے پایا تھا۔امریکی کانگریس اور ایرانی پارلیمان کے اراکین کا اصرار تھا کہ اس پر منتخب ایوانوں میں رائے شماری ہونی چاہیے اور وہاں سے منظوری کی صورت میں اس پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔تاہم کانگریس میں ری پبلکن ارکان اس معاہدے کے استرداد سے متعلق قرارداد کی منظوری کے لیے درکار حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔