واشنگٹن(آن لائن)ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان رواں برس 14 جولائی کو طے پانے والے جوہری معاہدے کے تحت تہران پر عائد بین الاقوامی پابندیاں مرحلہ وار اٹھانے کے سلسلے کا آغاز ہو گیا ہے۔ یاد رہے معاہدے کے تحت ایران کو اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کرنے کا پابند بنایا گیا تھا۔اسی تناظر میں امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے محکمہ خارجہ، خزانہ، اقتصادیات اور توانائی کو ایک ہدایات نامہ جاری کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے، ’میں آپ کو ہدایت کرتا ہوں کہ ایرانی جوہری معاہدے میں طے کردہ امریکی وعدوں پر عمل درآمد کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں۔‘ یہ ہدایات نامے کی نقل وائٹ ہاو¿س کے پریس کے شعبے نے ذرائع ابلاغ کو بھی مہیا کی ہے۔اعلیٰ امریکی عہدیداروں نے تاہم نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں اداروں کو بتایا کہ صدر اوباما کے اس حکم نامے کے بعد بھی ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کے باوجود تہران حکومت پر عائد پابندیاں اٹھانے کے عمل میں کم از کم دو ماہ لگ سکتے ہیں۔یہ بات اہم ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی اس معاہدے کو منظور کر چکی ہے۔ سلامتی کونسل کے تمام پانچ مستقل رکن ممالک امریکا، روس، برطانیہ، فرانس اور چین کے علاوہ جرمنی بھی اس معاہدے تک پہنچنے کے لیے ایران کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں پی 5+1 کا حصہ رہا ہے۔امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’ایران اب اس معاہدے کے تحت وہ تمام اقدامات اٹھانا شروع کر رہا ہے، جن سے یہ طے ہو جائے کہ ایرانی جوہری پروگرام صرف اور صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔جان کیری کا کہنا ہے، ’پابندیاں اس وقت تک نہیں اٹھائی جائیں گی، جب تک ایران اس معاہدے کا اطلاق نہیں کر دیتا۔ ایران کو وہ تمام جوہری اقدامات مکمل کرنا ہیں، جو اس معاہدے میں طے ہوئے اور ان کی تصدیق بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے کرنا ہے۔