نئی دہلی(آن لائن)ملک میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے بڑھتے تشدد اور مودی سرکار کی پالیسیوں سے نالاں بھارتی ادیبوں کی جانب سے سرکاری اعزازات واپس کرنے کا سلسلہ جاری ہے، اب تک پینتیس ادیب ایوارڈز واپس کرچکے ہیں۔بھارت میں ادیبوں اور شاعروں کی جانب سے سرکاری ایوارڈز واپس کرنے کا سلسلہ اب ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اب تک 35 سے زائد، شاعر ، ادیب اور دانشور اپنے ایوارڈ حکومت کی جانب سے تشدد کے خلاف موثر اقدامات نہ اٹھانے پر بطورِ احتجاج واپس کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ایوارڈز واپس کرنے والے معروف ادیبوں کا کہنا ہے کہ مودی سرکار عوام اور ادیبوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے جبکہ اس حوالے سے ساہتیہ اکیڈمی کی خاموشی بھی تشویش ناک ہے۔ایوارڈ واپس کرنے والے بھارتی شاعر منگلیش دبرال کا کہنا تھا کہ مودی غیر ملکی دوروں میں بڑی بڑی باتیں کرتے نظر آتے ہیں لیکن اپنے ملک میں وہ ان باتوں اور دعووں کو عملی شکل دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔بھارتی مصنف اودے پرکاش کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی اس طرح کی جارحیت نہیں دیکھی۔بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی بھانجی نین تارا سہگل بھی اپنا ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کرچکی ہے، ان کا کہنا تھا کہ مودی سرکار کی خاموشی ہندو انتہا پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں کو مزید بڑھاوا دے رہی ہے۔افسانہ نویس جی ایس بھلر نے اپنا ایوارڈ واپس کرتے ہوئے کہا کہ انتہاپسند قوتوں کے خلاف بطور احتجاج ایسا کررہے ہیں کہ جو ادب اور ثقافت کے شعبے میں بھی اپنی من مانی کرنا چاہتی ہیں۔مودی کے اپنے شہر گجرات سے تعلق رکھنے والے جی این ڈیوی کا کہنا تھا کہ ان کا احتجاج کسی مخصوص حکومت کے خلاف نہیں ہے، بلکہ میں چاہتا ہوں کہ ملک کے آئین کی پوری طرح پاسداری کی جائے۔