اسلام آباد(نیوزڈیسک)شام کے لیے انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی برطانوی تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ سنافی النصر کی ہلاکت فضائی بمباری میں ہوئی ہے۔سنافی النصر کا حقیقی نام عبد المحسن عبد اللہ ابراہیم الشارخ تھا، وہ شام میں القاعدہ کی تریتب دی گئی شوریٰ النصرہ یا ویکڑی کمیٹی کے سربراہ تھے۔انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم کے سربراہ رمی عبد الرحمن کا کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ سنافی النصر امریکی طیاروں کی بمباری میں نشانہ بنے ہیں یا ان کی ہلاکت روسی جہازوں کے حملوں میں ہوئی ہے۔شام میں داعش اور صدر بشار الاسد کے خلاف سرگرم عسکری تنظیم جبتہ النصر کا دعویٰ ہے کہ سنافی النصر کو امریکی خفیہ طیارے ڈرون نے میزائل حملے میں نشانہ بنایا۔سنافی النصر ان 6 افراد میں شامل ہیں جن کے نام گزشتہ برس اقوام متحدہ نے پابندیوں کی فرست میں شامل کیے تھے۔30 سالہ عبد المحسن عبد اللہ ابراہیم الشارخ سعودی عرب کو مطلب 85 افراد کی فہرست میں شامل تھے.القاعدہ سے منسلک شام کی جنگ میں مصروف تنظیم جبتہ النصرہ کے مطابق سنافی النصر کو الدانہ کے علاقے میں نشانہ بنایا گیا اور ان کی گاڑی پر 2 میزائل داغے گئے۔جس وقت ان کی گاڑی پر حملہ ہوا گاڑی میں ان کے 2 دیگر ساتھی کمانڈر یاسر المہاجر اور ابو اعظم بھی موجود تھے جو کہ حملے میں ہلاک ہوئے۔رپورٹس کے مطابق سنافی النصر کو مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کا کزن بتایا جاتا ہے، وہ القاعدہ کی جنگی حمت عملی ترتیب دینے کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔شام میں مارے جانے والے بن لادن خاندان کے سنافی النصر کے 6 بھائی تھے جن میں سے زیادہ تر القاعدہ میں شامل ہو گئے تھے، ان کے 2 بھائی عبد الہادی عبد اللہ ابراہیم الشیخ اور عبد الرزاق عبد اللہ ابراہیم الشیخ امرکا کی کی بد نام زمانہ جیل گوانتا ناموبے میں بھی قید رہے تھے، جن کو 2007 میں سعودی عرب کی جیل منتقل کیا گیا تھا۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں