استنبول/برسلز(اے این این) نیٹو نے کہا ہے کہ بظاہر ایسا نہیں لگ رہا کہ شام میں حملے کرنے والے روسی جنگی طیاروں نے غلطی سے ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی۔تنظیم کے سیکریٹری جنرل ہینس سٹولٹنبرگ کا کہنا ہے کہ روس نے ان حرکات کی کوئی حقیقی توجیح پیش نہیں کی ہے۔نیٹو کے سیکریٹری جنرل ہینس سٹولٹنبرگ نے روسی طیاروں کے ترک حدود میں داخلے کو ناقابلِ قبول قرار دیا اور کہا نیٹو اس معاملے کو بہت اہمیت دے رہی ہے۔انھوں نے خبردار کیا کہ ایسے واقعات اور حادثات خطرناک حالات کو جنم دے سکتے ہیں۔ترکی اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر دو مرتبہ روسی سفیر کو طلب کر چکا ہے اور اب روس کے نائب وزیرِ دفاع اناطولی انتونوو نے کہا ہے کہ وہ ترک حکام کو اس بحران پر بات چیت کے لیے ماسکو آنے کی دعوت دینے پر تیار ہیں۔ادھر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کا کہنا ہے کہ ترکی پر حملہ نیٹو پر حملے کے مترادف ہے۔روسی فضائیہ نے شام میں اہداف پر بمباری کا آغاز گذشتہ بدھ کو کیا تھا اور اس کا دعوی ہے کہ وہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔روسی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ منگل کو 20 مرتبہ جنگی جہاز شام میں کارروائی کے لیے گئے اور انھوں نے دولتِ اسلامیہ کے 12 ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جن میں کمانڈ سنٹر اور تربیتی کیمپ بھی شامل تھے
مزید پڑھئے: فیس بک بن سکتی ہے ڈپریشن کا باعث؟
۔ادھر ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ روسی جنگی طیاروں کی جانب سے ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے واقعات کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ برسلز میں بیلجئم کے وزیرِاعظم کے ساتھ ملاقات کےبعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ روسی طیاروں کی جانب سے ترک فضائی حدود کی خلاف ورزی کو ان کا ملک کسی صورت برداشت نہیں کرے گا۔صدر ایردوان نے واضح کیا کہ روس کو یہ حقیقت پیشِ نظر رکھنی چاہیے
کہ ترکی پر حملہ ‘نیٹو’ پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ترک صدر نے کہا کہ روس اور ترکی کے دوستی سے دنیا واقف ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان کئی معاملات میں قریبی تعاون موجود ہے۔ان کے بقول اگر روس نے اس دوستی کو خراب کیا تو اسے اس کا خمیازہ بھگتا پڑے گا۔ترک حکام کا کہنا ہے کہ شام میں داعش اور صدر بشار الاسد کے مخالف باغیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کرنے والے روسی طیارے اب تک دو بار ترکی کی فضائی حدود میں داخل ہوچکے ہیں۔فضائی حدود کی خلاف ورزی پر ترکی نے سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے اور ترک وزارتِ خارجہ انقرہ میں تعینات روسی سفیر کو دو روز کے دوران دو بار طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کراچکی ہے۔ترک وزیرِاعظم احمد داود اولو نے ماسکو حکومت کو خبردار کیا ہے کہ ترک فضائیہ کو ملک کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے غیر ملکی جنگی طیاروں کو مار گرانے کا اختیار ہے۔روسی وزارتِ دفاع نے موقف اختیار کیا ہے کہ ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی موسم کی خرابی کے باعث ہوئی اور اس معاملے کو کسی سازشی نظریے سے دیکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔لیکن مغربی ملکوں کے دفاع اتحاد نیٹو نے روس کی اس وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ روسی طیاروں کی جانب سے ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزیاں “حادثاتی معاملہ” نہیں لگ رہیں۔