پوچھا گیا کہ امریکہ کے تربیت یافتہ کتنے باغی لڑ رہے ہیں تو انھوں نے کہا کہ یہ بہت تھوڑی تعداد ہے ہم چار یا پانچ کی بات کر رہے ہیںانھوں نے کہا کہ صاف ظاہر ہے کہ سالانہ 5000 افراد کو بھرتی کرنے کا مقصد پورا نہ ہو سکتا تاہم ساتھ ہی انھوں نے صبر کا مشورہ بھی دیا۔یہ کام تھوڑا زیادہ وقت لے رہا ہے، لیکن اگر ہم نے دیرپا اور مثبت نتائج حاصل کرنے ہیں تو شاید یہی طریقہ ہو گا۔جنرل آسٹن کے ہمراہ موجود دفاع کی پالیسی کی نائب وزیر کرسٹین وارمتھ نے کہا کہ ابھی 100 مزید باغی تربیت لے رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اتنی کم تعداد کا تعلق جانچ کے عمل سے ہے کیونکہ امریکہ صرف ان کو بھرتی کر رہا ہے جو دولتِ اسلامیہ سے لڑنا چاہتے ہیں ناکہ شامی فوج سے۔جنرل آسٹن نے وعدہ کیا کہ اگر یہ ثابت ہوا کہ دفاع کے سینئر اہلکاروں نے شام میں دولتِ اسلامیہ یا القاعدہ کی طاقت کو کم دکھانے کے لیے انٹیلی جنس کے ساتھ ساتھ چھڑ چھاڑ کی تھی تو ان کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے گی۔