سرحد پر ہندوستانی پنجاب میں داخل ہوا تو پلک جھپکتے ہی اسے جاسوسی کے شبے میں دبوچ لیا گیا۔بے چارہ ابھی پنجاب پولیس کی تحویل میں ہے لیکن اونچی اڑان بھرنے کی چاہ رکھنے والے باقی کبوتر اسے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ نہ وہ جان پر کھیل کر سرحد پار کرتا، نہ پکڑا جاتا، نہ حکومت اپنی پالیسی بدلتی نہ ان کے لیے نئی بلندیوں کو چھونے کی راہ ہموار ہوتی۔لیکن بس ذرا سی احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ سیر و تفریح کے لیے تشریف لائیں، گھومیں پھریں، مزے کریں، بظاہر حکومت خطے کے کبوتروں کے درمیان رابطے بڑھاناچاہتی ہے، لیکن در پردہ کوئی اور ایجنڈا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے، اس میں نہ کوئی ڈھیل برتی جاسکتی ہے نہ برتی جانی چاہیے۔اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو انسانوں کے لیے بھی ویزے کی شرائط نرم کی جاسکتی ہیں۔ لیکن کسی جلدبازی میں نہیں، بنگلہ دیش سے تو پرانی دوستی ہے، پھر بھی معاہدے پرعمل کرنے میں 41 سال لگ گئے۔اور ہاں، کشمیری حریت پسند کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، مسئلہ کشمیر اور چٹ محل کے تنازعے میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔ بنگلہ دیش کی سرحد پر صرف لوگ ادھر رہنے یا ادھر جانے کا فیصلہ کریں گے، زمین وہیں رہے گی جہاں ہمیشہ سے تھی۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں